بروزِ اتوار

گزشتہ سے پیوستہ روزصبحدم دم دما دم ڈھول باجے اور موسم کی یخی نے بھر پور انداز سے اوور کم کر لیا۔گرماکو بھرپور شکست سے دوچار کر دیا۔ چند روز سے یہ معرکہ جاری تھا۔ آخر کار بادلوں کی گھن گھرج کے دمدمہ میں نقارے پر چوٹ ہوئی۔صبح سمے اس اچانک سرد اور برفیلی رُت نے شہریوں کو لرزا دیا۔ معلوم تو تھا کہ یخ ککر ہوائیں آہستہ رو اس شہر کی آب وہوا اور فضا کی جانب بڑھ رہی ہیں۔پھرکچھ ہی دنوں میں طویل ترین گرمی کو آن لیں گی۔ پھر سردی کا راج بھی آہستہ رو سہی مگر عام ہو جائے گا۔مگر اس قدر جلدی سردی کا اچانک حملہ آور ہونا گمان میں نہ تھا۔سرِ شام سڑکوں پر سناٹے کا راج رہا۔ ٹریفک معطل تھی۔ سڑکوں راستو ں کی ویرانی پتہ دے رہی تھی کہ پشاور واسیوں نے سردی کی آمد کو یخی کاحملہ سمجھا ہے۔وہ کونوں کھدروں میں جا پڑے ہیں۔تندور والا تھا کہ کوئی چھابڑی فروش مزدور تھا کہ کارخانے دار یا اہلکار یا بڑا افسر سب کے موبائل میں نیٹ نے دھیرج سے قدم اٹھانا شروع کر دیئے تھے۔ سردی کا عالم تھا یا پاکستان انڈیا کے مابین کرکٹ میچ کا ہوّا تھا۔ شہریوں نے بستروں میں چھپ کر ٹی وی اور موبائل پر میچ دیکھا۔ بلکہ بستر کے کمبل تو دن دیہاڑے رم جھم کی کیفیت میں ولیموں اور شادیوں کی دھمکار میں بجتے ہوئے میوزک کے دوران میں دوپہر سے قبل ہی لوگوں کے کاندھوں پر جھولنے لگے۔وجہ یہ کہ عام آدمی نے تو سردی کی تیاری ہی نہیں کی تھی۔ کیا پتا موسم کی خنکی پھر سے گرما میں بدل جائے۔ کیونکہ اس بار تو گرمی نے وہ ناچ نچایا اور وہ کھیل کُھل کر کھیلا۔ وہ چھکے چوکے لگائے کہ اب سرما کے اختتام تک گرمی کے دیئے ہوئے زخم بھر پائیں تو بھر پائیں۔سردی اب کے پانچ مہینے تک شہریوں کے دلوں پر ٹکور کرے تو کرے۔اس تھوڑی سی بارش میں پھر بھی ہماری سڑکو ں کے گڑھوں میں پانی دوسرے دن بھی کھڑا رہا۔سارادن دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی میں پشاور کے ہلال کا شعر نوکِ زباں رہا ”دھوپ کے موسم میں بھی کچھ بارشیں پیہم رہیں۔ یہ مری آنکھیں کہ وصلِ یار میں بھی نم رہیں“۔اصل میں موسمیاتی تبدیلیاں بھی اب دنیا کے شہریوں کے اعمال سے مشروط ہو چکی ہیں۔جتنے دھوئیں سگریٹ کے ہوں یا چمنیوں کے تندوروں اور چولہوں آگ الاؤ کے ہوں یا گاڑیوں میں سے نکلتی حبس ہو۔سب نے مل کر اس ماحول کو تاخت و تاراج کیا ہے۔اب جو کیا وہ بھگتنا ہے۔بے موسم کے پھل سبزیوں کے بارے میں جانکاری تو حاصل تھی۔مگر بے موسم کی برفیلی رُت یاہواؤں کے بارے میں بہت کم برس بیت گئے کہ کانوں اور آنکھوں کو معلومات حاصل ہوئی ہیں۔مچلیاں تو سرِ بازار اچھلتی کودتی دکانوں کے تھڑوں او رہتھ ریڑھیوں اور کڑاہیوں میں نکل آئی تھیں مگرسرما کے آغاز اور پھر ایک ہی دن میں چھاجانے کا عالم تو دیکھنے والا نظارہ ہے۔مفلر والوں نے اپنے مفلر سے نقاب کر کے ہواؤں کو سینے کی دھونکنی میں آنے سے روکا تو اپنے پیاروں نے چادریں اوڑھ لیں۔صبح جب گھر کی چار دیواری کی حبس سے اٹھ کرگلی میں نکلنانصیب ہوا تو عجیب عالم تھا۔ اپنی اکہری قمیض کے ہوتے سامنے والو ں کو گرم کوٹیاں پہنے دیکھا تو نہ چاہتے ہوئے دانت بجنے لگے۔سوچا ارے یار یہ سردی بس ماحول کو یرغمال کر لیا ہے۔مگر اتنا اچانک تو کبھی دیکھا نہ سنا۔واہ رے موسم کی انگڑائی پھر اس قدر اپنے خاص انداز کے ساتھ کہ اپنی جمائیا ں اور نیند سے بیدار ہوتے کی انگڑائیاں بھولنا پڑیں۔گویا اتوار کا دن تاریخی دن تھا۔ وہاں کرکٹ میچ میں ارض وطن کی فتح یابی اور ہوائی فائرنگ کی آوازیں۔اتنی کہ کھڑکیاں دروازے بند کرنا پڑے۔ کیونکہ کوئی بھولی بھٹکی گولی کہیں اندر نہ آ پڑے۔ سرکاری پیادوں نے بہتوں کو گرفتار کیا۔مگر باقی جو بچ رہے وہ دو آدمی نہ تھے۔تعدا د میں بہت زیادہ ہیں کسی نے تاریخ کو سامنے رکھ کر کرکٹ میچ پر پھبتی کسی کہ بابر نے ہندوستان فتح کر لیاہے۔کسی نے  انڈین فلم کے مشہور ڈائیلاگ کو دہرا کر نئے معانی کا لباس پہنایا کہا کتنے آدمی تھے۔سامنے والے نے دو بیٹسمینوں کوذہن میں رکھ کر خوبصورت جواب دیا دو آدمی تھے سرکار۔یہ باتیں تو بہت اچھی ہیں اور اپنی سی خوشی منانے والی بات ہے۔مگر یہ جو ہوائی فائرنگ کا انداز ہے وہ خوشی منانے والا نہیں ہے۔سو اس دن بروز اتوار ہی سردی نے بھی اپنے خیمے گاڑھ دیئے اور طنابیں کھینچ لی ہیں۔پھر جو ہم نے ایک ولیمے میں حاضری دیناتھی تو ہم نے اپنی گرم کوٹی جو دسمبر میں پہنتے ہیں وہ نکالی اور جسم پر آڑھی ترچھی کھنچ کر ممنوعہ نعمتیں تناول کرنے اور اپنے ڈاکٹر صاحب کی خیالی ناراضی مول لے کر کھانے کے خوانچے کے کنارے بگلہ بھگت بن کر چپ چاپ میسے ہو کر بیٹھ رہے کہ جیسے ہمیں کوئی بیماری لاحق نہیں۔