ٹی ٹوئنٹی کرکٹ عالمی مقابلوں میں پاکستان ٹیم نے لگاتار 2 کامیابیاں حاصل کی ہیں جو کسی بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ اِس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اِس سے قبل بھارت کے خلاف میچ میں پاکستان نے دس وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی اور یہ بھی ٹی ٹوئنٹی میچوں میں ٹیم گرین کی سب سے بہترین کارکردگی کا ریکارڈ تھا جبکہ چھبیس اکتوبر کو نیوزی لینڈ (کیویز) کے خلاف مقابلہ جیت کر پاکستان نے لگاتار دو مقابلوں میں جیت کر اپنی کارکردگی کے ریکارڈ کو بہتر بنایا۔ کامیابیوں کا یہ تسلسل جاری رہا تو 29 اکتوبر کو افغانستان کی بظاہر آسان لیکن درحقیقت مشکل ٹیم سے جیت کر پاکستان اپنے گروپ کی ٹیموں میں سرفہرست آ جائے گا اور یہ تین میچ جیت کر چھ پوائنٹس کے ساتھ اگلے مرحلے کیلئے کوالیفائی کر جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان کو فائنل میں کھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور فتوحات کا سلسلہ طویل رہے گا۔پاکستان کے کھلاڑی اچھی باؤلنگ اور اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ کیویز کے خلاف فیلڈنگ میں پاکستانی کھلاڑیوں سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں‘ اگر اُن پر قابو نہ پایا گیا تو کرکٹ ایسا بے رحم کھیل ہے کہ اِس میں بار بار غلطیاں کرنے والوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ کھیل کا انحصار اچھی باؤلنگ پر زیادہ ہوتا ہے کہ اِس میں کم سکور کی صورت بھی جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فی الوقت سبھی پاکستانی باؤلرز اچھی باؤلنگ کررہے ہیں۔ شاہین شاہ‘ حسن علی اور شاداب خان چھائے ہوئے ہیں۔ زبردست فیلڈنگ بھی کی گئی تب ہی آصف علی اور شعیب ملک نے آسان گیندیں چھوڑ بھی دیں اور کیویز کے خلاف بیٹنگ تو شروع سے آخر تک مکمل پاکستانی سٹائل میں تھی کہ ایک آسان ہدف کو مشکل بنا کر آخر میں آرام سے جیت گئے! پاکستانی کھلاڑیوں کو شاید اِس بات سے مزا آتا ہے کہ یہ پہلے جیت کو ناممکن بنائیں اور پھر اِس ناممکن کو ممکن بنا کر دکھا دیں! کیویز کے خلاف بابر اعظم مسلسل دوسرے میچ میں ٹاس کے معاملے میں خوش قسمت رہے اور پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ شاہین آفریدی شروع میں وکٹیں لینے میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر انہوں نے عماد وسیم کے ساتھ سکور روکے رکھا۔ جاری مقابلوں میں پاکستان کی جانب سے کافی کچھ نیا ہے۔ پہلے میچ میں بھارت کے خلاف ہدف کے تعاقب کو رہنے بھی دیں تو حارث رؤف کی باؤلنگ ایک اور معمہ ہے۔ حارث رؤف بہترین سٹرائیک باؤلر ہیں‘ تیز رفتار گیندیں کرتے ہیں اور وکٹیں گراتے ہیں پر رنز روکنا ذرا مختلف سا کام ہے مگر حیران کن طور پر اس ٹورنامنٹ میں وہ رنز روکنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ ڈیڑھ سو کی رفتار سے تیز گیندیں بھی اس کنٹرول سے پھینک رہے ہیں جس کنٹرول سے ایک سو پچیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سست گیندیں۔ ان کے یارکرز اور باؤنسرز دونوں ہی مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارت کے خلاف بھی حارث رؤف نے بہترین سپیل کیا تھا لیکن وکٹ صرف ایک ہی حاصل کرپائے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف نہ صرف حارث رؤف نے پرانی گیند سے وکٹیں حاصل کیں بلکہ پاور پلے کے دوران اوور ملنے پر نیوزی لینڈ کی پہلی وکٹ بھی گرائی۔ حارث رؤف کے ساتھ ساتھ شاداب خان کی باؤلنگ بھی ابھی تک کافی اثر انگیز ثابت ہوئی ہے نیوزی لینڈ کی اننگ کی خاص بات یہ تھی کہ بھارت کی طرح دس اوورز کے اختتام پر نیوزی لینڈ کا سکور تین وکٹوں کے نقصان پر ساٹھ رنز اور پندرہ اوورز کے اختتام پر چار وکٹوں کے نقصان پر ایک سو رنز رہا۔ پاکستان کیلئے خوش آئند بات یہ رہی کہ اگلے پانچ اوورز میں بھارت کی طرح نیوزی لینڈ اکیاون کی بجائے صرف چونتیس رنز ہی بنا سکی ورنہ ممکن ہے کہ اضافی سترہ رنز نتیجہ خیز ثابت ہوتے! بھارت کے خلاف پہلا میچ اگرچہ مکمل طور پر یک طرفہ تھا لیکن اُس میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے مداحوں کو سبھی کچھ دکھا دیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ دو میچز کے بعد بھی پاکستانی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست ہے اور اب گروپ میں اس کیلئے بظاہر اور نسبتاً آسان میچز باقی ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی ٹیم باقی تینوں میچ بھی جیت کر کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھے گی اور عالمی ریکارڈز پر ریکارڈز بناتی چلی جائے گی۔