بھارت کی مجبوری اور پاکستان کی اعلی ظرفی

پاکستان چاہتا تو افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھارت اور طالبان حکومت کا رابطہ اور بات چیت کبھی نہ ہو پاتی مگر پاکستان نے اعلی ظرفی دکھاتے ہوئے طالبان کو نہیں روکا بلکہ اس کو خوش آئند کہا۔بھارت نے اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت پاکستان دشمنی اور اسے بدنام اور تنہا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ادلے کا بدلہ کے اصول کے تحت پاکستان اسے اسی انداز میں جواب دینے کا حق اور اخلاقی جواز رکھتا ہے مگر پاکستان پاکستان ہے بھارت نہیں ہے جو کم ظرفی دکھانے کو اپنی دانائی اور قابلیت سمجھتا ہے۔ماضی کے بھارت نواز افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف معامدانہ مہم ہو یا پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کا معاملہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی صدارت کے دوران بین الاقوامی بحث و مباحثہ سے پاکستان کو باہر رکھنا ہو یا ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے خلاف پابندیوں کا مسئلہ، سارک کانفرنس کے اجلاس میں رکاوٹ کی بات ہو یا ای سی او کے سربراہ یا وزارتی اجلاس میں رخنہ ڈالنے کی، پاکستان کے خلاف گمراہ کن غلط پروپیگنڈہ مہم ہو یا افغان طالبان اور پاکستان کا تعلق۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کیساتھ مذاکرات اور اچھے تعلقات کی خواہش ہو یا پاکستان پر بھارت میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے من گھڑت الزامات، بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام اور تنہا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور اسے ناحق ہر برائی کی جڑ قرار دیا۔ کسی اور نے نہیں خود بھارتی وزیر اعظم نے عوامی جلسوں میں کہا کہ بھارت پوری دنیا میں پاکستان کو الگ تھلگ رہنے پر مجبور کردے گا۔بھارت کی اسی پالیسی کے تحت اس نے نہ صرف خود آئی سی سی کی جانب سے کیلنڈر کے تحت پاکستان میں ہونے والے پاک بھارت میچز کا بائیکاٹ کیا بلکہ دوسروں کو بھی یہاں آنے سے روک کر پاکستان کے کرکٹ میدانوں کو سنسان کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس نے آئی سی سی کے مقابلوں کو یہاں سے دوسری جگہ منتقل کروایا۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دورے ملتوی کرانے میں بھی اس نے کردار ادا کیا۔2020 کی ای یو ڈس انفو لیب کی انڈین کرونیکلز نامی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ برسوں سے 750سے زائد ویب سائٹس کو دنیا کے 119ممالک میں پاکستان کیخلاف پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا گیا جو بظاہر ساری بھارت سے چلائی جارہی تھیں اور ان کے ذریعے پاکستان فوج اور سی پیک کے خلاف اور پاکستان کو فیٹف کی بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے حق میں جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔بھارت کی پروپیگنڈہ مہم، پے درپے زیادتیوں، پاکستان میں مداخلت، پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مدد اور سازشوں کے باوجود یہ پاکستان ہی تھا جس نے پھر بھی ہمیشہ بھارت کو مذاکرات کی مسلسل پیشکشیں کیں مگر بھارت نے ہمیشہ انکار کیا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر پر حملے کے دوران اس کے پائلٹ ابھی نندن کو اس کی درخواست کے بغیر جذبہ خیر سگالی کے تحت پورے پروٹوکول اور آو بھگت کے ساتھ رہا کیا مگر بھارت نے شکریہ بھی ادا نہیں کیا بلکہ الٹا کم ظرفی کا مظاہرہ کرکے یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان کو ہم نے ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔ بھارت کو جان لینا چاہئے کہ پڑوسی تبدیل نہیں کیے جاسکتے، پاکستان کو وہ ختم نہیں کرسکتا اور نہ پاکستان اس کی بالادستی قبول کرسکتا ہے اور یہ کہ وہ سازشوں اور پروپیگنڈے کے زور سے پاکستان کو تنہا اور مجبور نہیں کرسکتا۔ اسے پاکستان کے ساتھ احترام، برابری اور نیک نیتی کے ساتھ باہمی مذاکرات کے ذریعے تمام تصفیہ طلب مسائل حل کرنے ہوں گے۔ پرامن بقائے باہمی ہی واحد راستہ ہے۔ جتنا جلد وہ اس طرف آئے گا اس خطے، دنیا اور دونوں ملکوں کے عوام کیلئے مفید ہوگا۔طالبان سے کسی بھی قسم کے رابطے اور بات چیت سے پہلوتہی کے اپنے سابقہ موقف کے برعکس بھارت نے بیس اکتوبر کو ماسکو میں افغان کانفرنس کے مشترکہ بیان، جس میں طالبان حکومت کو ایک نئی حقیقت بتایا گیا ہے، کی توثیق کی بلکہ بھارتی وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری نے پاکستان، افغانستان اور ایران کیلئے بھارت کے خصوصی نمائندے جے پی سنگھ طالبان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور وزیر خارجہ عامر خان متقی سے ملاقات کی اور طالبان حکومت کو انسانی امداد کی پیش کش کی۔ تاہم وہ اس کی تقسیم اقوام متحدہ کے ذریعہ کروانا چاہتا ہے۔اس ملاقات کی خبر طالبان کے وزیر اطلاعات و نشریات ذبیح اللہ مجاہد نے دی جبکہ بھارت نے سبکی سے بچنے کیلئے سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں کیا۔بھارت اب تک سابق افغان حکومت کے اہلکاروں کی ناراضگی کے خوف سے طالبان سے براہ راست رابطے سے اجتناب کرتا رہا مگر اب اسے احساس ہوگیا ہے کہ طالبان حکومت سے تعلقات کار رکھنا ضروری ہیں ورنہ پچھلی حکومت کے دور میں وہاں اس کی تین ارب ڈالر کی سیاسی سرمایہ کاری ضائع ہوجائے گی۔ بھارت کو شاید یاد ہوگا جب دو سال پہلے افغان طالبان کا وفد وزیر اعظم سے ملنے آرہا تھا تو بھارت نے افغانستان حکومت کے ذریعے پاکستان کی اس کوشش کو سبوتاژ کیا اور پھر جب پاکستان میں افغان مسئلے کے حل کیلئے مذاکرات کی بات کی گئی تو پھر اس کے اشارے پر افغان حکومت نے پاکستان میں مذاکرات سے انکار کردیا اور پھر قطر میں مذاکرات شروع کردئیے گئے۔ لیکن بھارت مطمئن رہے پاکستان اس کے نقش قدم پر نہیں چلے گا اور ذمہ داری دکھائے گا۔ بھارت کی خواہش تو یقینا یہ ہوگی کہ وہ ماضی کی طرح پھر افغانستان کو پاکستان مخالف سرگرمیوں اور سازشوں کا گڑھ بنانے کے قابل ہوجائے لیکن اب وہ دور واپس نہیں آسکتا۔ تاہم وہ اطمینان رکھے پاکستان اس کے خلاف افغانستان میں اس کی طرح سازشیں کرے گا اور نہ اس کی طرح بھارت مخالف عناصر کی تربیت، مدد اور سرپرستی کرے گا۔ مزید برآں افغانستان کے حوالے سے اس کی پالیسی عرصے سے پاکستان مخالف، چین مخالف اور روس نواز یا امریکہ نواز رہی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے کیا وہ کوئی ایسی پالیسی اختیار نہیں کرسکتا جو امریکہ کے مفادات سے جڑی، پاکستان مخالف اور چین مخالف نہ ہو؟۔