زیتون کی کاشت کے امکانات 

ایک اخباری اطلاع کے مطابق بین الاقوامی زیتون کونسل نے پاکستان کو باضابطہ طور پر کونسل کا رکن تسلیم کرلیا ہے۔ کونسل ہر سطح پر معاونت فراہم کرے گی اور پاکستان کے زیتون کے تیل اور اس کی مصنوعات کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کے علاوہ زیتون کے تیل کی برآمد میں بھی مدد کرے گی۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کے وسیع امکانات ہیں۔واضح رہے کہ اس وقت حکومت پاکستان زیتون کی ترقی کیلئے کئی منصوبے چلا رہی ہے جن کی تکمیل پر مستقبل میں پاکستان کے نہ صرف زیتون کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کاامکان ہے بلکہ پاکستان زیتون اور اس سے متعلق اشیاء کی برآمد بھی کر سکے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے پوٹھوار کے علاقے میں کسانوں کو سبسڈی کی بنیاد پر 15 لاکھ زیتون کے پودے فراہم کیے ہیں اور ایک اندازے کے تحت پوٹھوہار میں 11 ہزار ایکڑ پر زیتون لگائے گئے ہیں جب کہ اس منصوبے کے تحت زیتون کی آبپاشی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جدید ڈرپ آبپاشی کا نظام 70 فیصد سبسڈی پر نصب کیا گیاہے۔وطن عزیز میں زیتون کی کاشت کے مواقع دیگر صوبوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستان کو خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کیلئے خیبرپختونخوا میں آئندہ 5 سال کے دوران 30 ہزار ایکڑ اراضی پر زیتون کے نئے باغات لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تقریباً 4.02 ملین زیتون کے پودے لگائے جائیں گے اور 40 لاکھ جنگلی زیتون میں پیوند کاری کی جائے گی جس میں پورے صوبے بالخصوص مالاکنڈ ڈویژن، وادی پشاور، ضم شدہ قبائلی اضلاع اور دریائے سندھ کے دائیں جانب کے علاقوں میں بڑے اور جدید پیمانے پرزیتون کاشت کی جائے گی۔زرعی ماہرین کاکہنا ہے کہ قدرت نے پاکستان کو مختلف قسم کی مٹی، ایکولوجیکل زونز اور موسمیاتی حالات سے نوازا ہے جہاں زیتون کے باغات کیلئے 4.4 ملین ہیکٹر سے زائد اراضی دستیاب ہے اور اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ملک کو خوردنی تیل میں خود کفیل بنانے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ سپین جو رقبے اور آبادی میں پاکستان سے کئی گنا چھوٹا ملک ہے وہ صرف 2.6 ملین ہیکٹر رقبے سے زیتون کی کاشت سے کل خوردنی تیل کا 45 فیصد پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان زیتون کی کاشت کیلئے 4.4 ملین ہیکٹر کے وسیع رقبے کے باوجود گھریلو استعمال کیلئے تقریباً 75 فیصد خوردنی تیل درآمد کر رہا ہے لہٰذا زیتون کی کاشت کو فروغ دے کرنہ صرف کثیر زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے روزگار کے نئے مواقع بھی وسیع پیمانے پرپیدا کیئے جاسکتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان میں اٹلی کے تعاون سے زیتون کا پہلا پروموشنل پراجیکٹ 2012میں شروع کیا گیا تھاجس کے تحت 1500 ہیکٹر رقبے پرزیتون کے پودے لگائے گئے تھے۔ بعد ازاں 3.82 بلین روپے کا یہ منصوبہ فروری 2020 میں پاکستان آئل ڈویلپمنٹ بورڈ کو منتقلی کے بعد پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اسلام آباد کے حوالے کیا گیا۔متذکرہ پراجیکٹ کے تحت خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں 2026تک 75ہزار ایکڑ سرکاری اور نجی اراضی پر تقریباً 10.41 ملین زیتون کے درخت کمرشل بنیادوں پر لگائے جائیں گے۔ زیتون کی کاشت کی سرکاری سرپرستی کے تحت پوٹھوہار کے علاقے خوشاب، اٹک اورجہلم کو وادی زیتون' جبکہ ایگریکلچر انسٹی ٹیوٹ ترناب پشاور کو زیتون پر تحقیق کیلئے مرکز قرار دیا گیاہے۔ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ترناب پشاور کی نگرانی میں سوات، کوہاٹ، دیر لوئر، شنکیاری (مانسہرہ) اور تالاش(دیر لوئر)میں تیل نکالنے کی نو مشینیں اور یونٹس قائم کیے گئے ہیں۔جب کہ خیبرپختونخوا میں زیتون کی چار نجی نرسریوں کی مرحلہ وار رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کیاگیا ہے اور مانکی شریف نوشہرہ، باجوڑ، دیر لوئر اور مالاکنڈ وغیرہ میں بھی زیتون کے باغات کی کاشتکاری کے کامیاب تجربات کیئے گئے ہیں۔یہ بات قابل غورہے کہ زیتون صرف تیل بنانے ہی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ اچار، سبز چائے، بسکٹوں، مشروبات اور مٹھائیوں سمیت دیگر مختلف خوراکی اشیاء کی تیاری میں بھی بکثرت استعمال کیاجاتاہے۔ زیتون کی کاشت ایک منافع بخش کاروبار ہے جس سے فی ایکڑ تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے تک کی آمدنی باآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔ماہرین اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں صرف خیبر پختونخوا میں چھ سے سات لاکھ ہیکٹر کے درمیان رقبہ زیتون کی کاشت کیلئے موزوں ہے جس سے سالانہ 3.6 بلین ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے جو پاکستان ہر سال زیتون کے تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے لہٰذا اگر اس علاقے کو زیر کاشت لایا جائے تواس طرح پاکستان زیتون کا تیل برآمد کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوسکتاہے۔واضح رہے کہ پاکستان پیٹرولیم کے بعد ہر سال خوردنی تیل کی درآمد پر 225.69 ارب روپے کاکثیر قومی سرمایہ خرچ کرتا ہے جس میں سویابین، پام آئل اورخوردنی تیل کی دیگر اقسام شامل ہیں۔ اگر تکنیکی عملے اور بہتر انتظام کی مدد سے 6لاکھ ہیکٹر میں سے 50 فیصد رقبے پربھی زیتون کاشت کی جائے تواس سے پاکستان اسے برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ صوبے میں زیتون کی کاشت کی پیداوار بڑھانے کیلئے اضلاع کی سطح پر تعینات زرعی ماہرین کو مقامی سطح پر زیتون کی کاشت کی بہتر دیکھ بھال اور انتظام کی ذمہ داری سونپی جائے کیونکہ بہتر انتظام سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ روزگار کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے۔