پاکستان کرکٹ ٹیم اور اِس حوالے سے تجزئیات پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ وکٹ کیپر بیٹسمین رضوان کی میدان کے وسط میں نماز کی ادائیگی ہو یا فاسٹ باؤلر وقار یونس کا تبصرہ سوشل میڈیا پر سب محفوظ ہے۔ یادوں کے اِسی خزانے میں حالیہ اضافہ قومی ٹیلی ویژن کے کھیلوں کیلئے مخصوص چینل (پی ٹی وی سپورٹس) سے نشر ہونے والا ایک واقعہ ہے جس میں پروگرام کے دو مرکزی کردار (میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز اور سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر) کے درمیان اختلاف رائے اِس حد تک بڑھا کہ میزبان (اینکر) نے ادب و اقدار کی ساری حدیں پھلانگ کر شعیب اختر کی اچھی خاصی بے عزتی کر دی اور یہ تماشا پوری دنیا نے نہ صرف دیکھا بلکہ سوشل میڈیا پر محفوظ بھی ہو چکا ہے جس کی تحقیقات کرنے کیلئے وفاقی حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا ہے حالانکہ جو کچھ ہوا وہ سب کچھ ’آن ائر‘ تھا اور حرف بہ حرف ’آن لائن‘ موجود ہے۔ جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اینکر ڈاکٹر نعمان الفاظ اور تاثرات سے شعیب اختر کی توہین کرتا ہے اور وہ مسکراتے ہوئے بات کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک موقع پر اینکر سے معافی مانگنے کو بھی کہتے ہیں لیکن وہ ڈھٹائی کامظاہرہ کرتا ہے جس کے بعد شعیب اختر یہ کہتے ہوئے نہ صرف پروگرام چھوڑ جاتے ہیں بلکہ ’پی ٹی وی سپورٹس‘ سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کرتے ہیں اور شائقین کرکٹ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ اینکرپرسن ڈاکٹر نعمان جنہیں اُن کی گلی محلے یا علاقے کے لوگ بھی نہیں جانتے ہوں گے وہ پاکستان کا عالمی کرکٹ میں نام روشن کرنے والی ایک عہدساز (لیجنڈری) شخصیت سے بدتمیزی کی جرأت کر رہے ہیں! پاکستان ٹیلی ویژن کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے حوالے سے جاری خصوصی نشریات کے دوران ایک تجزئیاتی پروگرام میں ویسٹ انڈیز کے سر ویوین رچرڈز اور برطانیہ کے ڈیوڈ گاور کے علاوہ پاکستان سے شعیب اختر‘ راشد لطیف‘ اظہر محمود‘ عمر گل اور ثنا میر شریک تھے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ مقابلے کے بعد یہ پروگرام معمول کے مطابق جاری تھا کہ اس میں نعمان نیاز اور شعیب اختر کے درمیان فاسٹ باؤلر حارث رؤف کی کارکردگی کے بارے میں گفتگو ہوئی اور اختلاف رائے ایک بدنما واقعے کی صورت رونما ہوا جس کا اختتام شعیب اختر کے اِس جملے پر ہوتا ہے کہ ”جس طرح میرے ساتھ قومی ٹی وی پر سلوک کیا گیا‘ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ مجھے (اب مزید) یہاں بیٹھنا چاہئے۔ اس لئے میں مستعفی ہو رہا ہوں۔ شکریہ۔“ یہ کہہ کر شعیب اختر اپنا کالر مائیک اتارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں‘ جس کے بعد اُن کے ٹوئیٹر سے پیغام جاری ہوتا ہے کہ ”میرے پاس (جواب دینے کا شاید) یہی (باعزت) راستہ تھا (کہ میں وہاں سے چلا آتا)۔“ شعیب اختر کی پہلی کوشش یہ تھی کہ وہ اینکر کی بدتمیزی کے جواب میں معاملے کو مذاق بنا کر ٹال دیتے اور یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اینکر ڈاکٹر نعمان کہا کہ آپ مجھ سے معذرت کر لیں لیکن انہوں نے ہٹ دھرمی اور غیرمنطقی رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا یقینا پروگرام میں بیٹھے اور اِسے دیکھنے والے ملکی و غیر ملکی کرکٹرز اور کرکٹ شائقین کیا سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان میں قومی شخصیات سے اِس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے!؟ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جس ملک کے اپنے لوگ اپنے ہیروز کی قدر نہ کریں وہ دوسروں سے کس طرح اِس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ پاکستانی ہیروز کے شایان شان عزت افزائی کریں گے!؟ شعیب اختر کرکٹ میں عالمی کارکردگی اور ساکھ کی بنیاد پر حق رکھتے ہیں کہ وہ تکنیکی رائے کا اظہار کریں اور اُن کی رائے ہمیشہ ہی سے اہم ہوتی ہے کیونکہ وہ باؤلر کے نکتہئ نظر سے ہی نہیں بلکہ ٹیم کے انتظامی امور سے بھی آگاہ ہیں اور خود اُن سبھی مراحل اور واقعات کے عینی شاہد ہیں جو پویلین اور ڈریسنگ رومز میں رونما ہوتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر نہیں دکھائے جاتے لیکن ڈاکٹر نعمان کہاں سے آئے اُن کا کرکٹ پس منظر کیا ہے اور صرف انگریزی زبان پر عبور اُنہیں یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی قومی شخصیت کی توہین کریں؟ وفاقی حکومت اِن سبھی حوالوں سے تحقیق کا ارادہ رکھتی ہے اور پی ٹی وی سپورٹس میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اختتام تک مؤخر کر دی گئی ہیں۔