موبائل پر اچھے سے اچھا شادی کارڈبناؤ اور امریکہ ترکی قطر شارجہ میں آن کے آن میں بھجوا دو۔ نہ تو کسی ڈاکخانے کی ضرورت نہ کسی قاصد کی حاجت رہے گی۔ ملک کے اندر ہزار کوس دور ہو یا ساتھ والے گھر میں ہو۔شادی کارڈ ارسال کیا جا سکتا ہے۔پھر کمال یہ کہ جو لوگ پہلے اس بات سے ناراض ہو تے تھے کہ فلاں نے موبائل پر خوشی کی تقریب کا دعوت نامہ کیوں بھیجا۔پریس میں شائع شدہ کارڈ کیوں ارسال نہیں کیا۔پھر اس پر نئی مصیبت یہ کہ کسی اور کے ہاتھ کیوں بھجوایا۔ وہ خود لے کر کیوں نہیں آیا۔ اب قریباً وہ باتیں نہیں رہیں۔ اب سب کو سب پتا لگ چکا ہے۔لوگ اپنی مصروفیات او روقت کی کمی اور پھر گھروں کے ایک ہی شہر میں ہو کر دور ہوجانے اور اس فاصلے کو سامنے رکھ کر رعایت دینے لگے ہیں۔ وہ موبائل پر بھیجے گئے اور ایس ایم ایس کے ذریعے ارسال کئے جانے والے شادی کارڈ کو قبول کر لیتے ہیں۔ایسے مہربان بھی ہیں جو اس بات پر گھروں کے تعلقات توڑدیتے تھے۔اس نے کارڈ کیوں نہیں بھیجا۔ان کا کہنا تھا بھلا ایس ایم ایس پر بھی کوئی کسی کو دعوت دیتا ہے۔پھر اس پھر الگ ناراضی کہ میرا شادی کارڈ میرے فلاں عزیز کے گھر میں کیوں دیا۔ اس پر برسوں اپنے خون کی رشتہ داری کے پُل میں دراڑ پڑ جاتی۔مگر وہی اپنی ضد پر اڑ جانے والے آج خود اگلے کو اپنے موبائل سے بیٹے کی شادی کا کارڈ وٹس ایپ کردیتے ہیں۔ وصول کرنے والابھی اگلے کی زحمت کو دیکھ کر ناراض نہیں ہوتا۔ بلکہ بعض تو اس بات پر شکر کرتے ہیں کہ چلو خود نہیں آیا کارڈ وٹس ایپ کر دیا ہے۔کیونکہ وقت جو نہیں ہے کہ کسی کو اتنا ٹائم دیا جاسکے۔ پھر شادی کارڈ لانے والا کوئی شخص نہ ہو بلکہ کوئی ہستی ہو تو پھر معاملہ سپیشل ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پر لڑکے یا لڑکی کا والد یا اس کی فیملی خو دآجائے تو وقت دینے کے علاوہ کھانے پینے میں بھی تکلفات کا مظاہر ہ کرنا پڑتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں شادی کارڈوں کا زمانہ بھی تیزی سے اپنے اختتام کی طرف جا رہاہے۔شادی ختم تو پریس کی چھپائی کا کام بھی جو رہا سہا ہے خطرہ میں ڈانواڈول ہے۔کمپیوٹر آیا تو اس نے سب کچھ فتح کر لیا۔اب موبائل نے باقی جو رہتا تھا اس کو بھی یرغمال کر لیاہے۔بلکہ کمپیوٹر سستا اور موبائل مہنگا ہو چکا ہے۔دس ہزار تک اچھاکمپیوٹر آ جاتاہے۔ جس کیلئے دفتر اور گھر وغیرہ میں ایک میز مخصوص کرنا پڑتی ہے۔ایک کرسی ہو اور ساتھ اس ناتے کام آنے والی اور چیزیں بھی میز پر موجود ہوں۔ بجلی کا سوئچ بورڈ ہو اور اس میں بجلی بھی تو ہو۔یہ نہ ہو کمپیوٹر سامنے دھرا ہو اور اس کو چلانے کیلئے تین گھنٹوں پہلے چلی جانے والی لائٹ کے واپس آنے کا انتظار کیا جائے۔مگر موبائل کیلئے اتنی وافر جگہ کی ضرورت نہیں۔ہتھیلی میں اور جیب میں چپکے سے آجاتا ہے۔موبائل دس ہزار کا نہیں آتا۔ ہاں سیکنڈ ہینڈ ہاتھ لگے گا۔مگر مہینہ بھر کے بعد اس میں کیڑے نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ مہنگا ہو مگر اچھا موبائل ہو۔مہنگے سے مہنگا موبائل تو آ ج کل سٹیٹس سیمبل بن چکا ہے۔جس کے پاس موبائل ہوگا دور سے اس کے مہنگا ہونے کا اندازہ ہو جائے گا۔ یوں اس گراں موبائل کی وجہ سے سامنے والے کے طرز ِ زندگی پربھی اچھی خاصی روشنی پڑے گی۔ ہر آدمی خواہ جس ذہن کا ہے اس نادر چیز سے فائدہ لے رہا ہے۔خواہ درزی ہے کہ لوہار ہے یا فنکار یا قلم کار ہے۔ہر ایک کو اس ایجاد سے سروکار ہے۔خواہ عوام ہے یا سرکارہے۔بچہ ہے یا کوئی بڑا کوئی باروزگار ہے۔ہر ایک کو اس بات میں دخل ہے۔جو اسے برا کہتے تھے جھوٹ نہ ہو تو وہ ایک چھوڑ تین تین موبائل جیب میں لئے گھومتے ہیں۔دفتر گھر اورعزیزوں رشتہ داروں دوستوں کیلئے الگ الگ۔سائنس اورٹیکنالوجی کو بہت سے لوگ اہمیت نہیں دیتے۔مگر اس کے باوجود ہم لوگ اسی کے محتاج ہیں۔ نئے زمانے کے نئے صبح شام نے ہماری زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔اگر سائنس کو بیچ میں سے نکال دیں تو انسان کیلئے اس دنیا میں جینے کے سامان بالکل محدود ہو جائیں بلکہ ختم ہو جائیں گے۔ کیونکہ ہمیں قدم قدم پرایک دوسرے کیلئے اور اپنے لئے بھی سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔پھر سائنس کے آلات خواہ جس قسم کے ہوں وہ انسان کی آسانی کیلئے بنے ہیں۔ نئی ایجادات جس کا تعلق دنیا کے ہر انسان کی سہولت اور ترقی کے ساتھ ہے اس کو ہم نہیں چھوڑ سکتے۔ ٹی وی کو بھی پبلک نے شروع میں پسند نہیں کیا۔ مگر بعد میں جو اسے ناپسند کرتے تھے انھوں نے اس سے اپنے مطلب کا کام لیا تو وہ بھی اس کی ایجاد سے خوش ہوگئے۔ مگر پچھلے پچاس سالوں میں سائنس نے جس تیز رفتاری سے ترقی کی ہے۔اس پر تو عقل اپنے دانتوں تلے انگلیاں دبائے حیرانی سے آنکھیں مٹکائے یوں دیکھ رہی ہے کہ جیسے اسے ذرا سا بھی چھو لیں تو دھڑام سے گر جائے گی۔جو پہلے تھا نہیں رہا جو اب ہے نہیں رہے گا۔