میں اس وقت سڑک پر تھا۔ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے گھر پہنچنے کی کوشش تھی۔ رات گئے کا عالم۔اچانک بے دریغ فائرنگ شروع ہوگئی۔ شادی ہال میں ولیمہ کا کھانا نوشِ جاں کیا تھا۔ رات کے گیارہ بجنے لگے تھے۔سوچا کہ شاید دو گروپوں کے درمیان سیدھی فائرنگ ہو رہی ہے۔کیونکہ ہمارے ہا ں کسی کے خیال میں یہ شک آنا جائز ہے۔پھر یہ فائرنگ کا تو کوئی موقع نہ تھا۔فائرنگ کس لئے ہو۔شادی ہال تو دور کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ شادی کی فائرنگ بھی تو نہیں۔ تو پھر یہ فائرنگ کیوں ہو رہی ہے۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جہاں سے گذرتا پورے شہر میں فائرنگ کی آوازیں کانوں کو چھیل رہی تھیں۔ جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ کیا پتا کوئی اندھی گولی بھول کر کہیں ہماری بائیک کا رخ نہ کرے۔ایک دم روشنی سی آنکھوں کے آگے اچھل گئی۔فائرنگ او رپٹاخوں کی اس دھواں دیتی ہوئی بارود کی بدبودار چمک میں سب کچھ سمجھ میں آگیا۔ دل نے کہا ہو نہ ہو آج کوئی کرکٹ میچ تھا۔پھر دوسری ٹیم جو بھی ہو مگر اس کا میچ پاکستان کے ساتھ ہوگا۔ پھر پاکستان یہ میچ جیت گیا ہوگا۔ چونکہ پاک انڈیا کا میچ ہمارے نزدیک اہمیت رکھتا تھا۔ سو تیسرے میچ کو ہم نے اہمیت نہ دی۔ اس لئے ہم بے خبر رہے کہ فائرنگ کیوں ہو رہی ہے۔پہلے دو میچوں میں بھی جیت کی خوشی میں آسمان کو رات کے وقت گولیوں سے لال کر دیا گیا تھا۔پھر اس کے دوسرے دن ایک بچے کی مووی بھی سوشل میڈیاپر وائرل ہوئی۔ اس کو کاندھے پر بے نام گولی نے آن دبوچا تھا۔ ہمارے گھر میں ہمارامعصوم بھی کیا چٹر پٹر بولنے والاہے۔چھ سال عمر ہے۔مگر کیسی کیسی باتیں ہیں۔ہماری غیر موجودگی میں ہمارے بارے میں پریشان تھا۔ دادی سے کہہ رہا تھا کہ یہ کہاں گیا ہے۔گولیاں چل رہی ہیں۔اس کو گھر میں ہونا چاہئے۔کتنے لوگوں کی لگی ہیں۔ہم گھر پہنچے اس نے ہماری آواز سنی تو پہلو میں دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔احتجاج کرنے لگا کہ آپ کہا ں تھے۔پاکستان جیت گیا ہے۔اتنی فائرنگ ہوئی ہے۔ دادی نے کہا ہا ں نا آپ کے پیچھے پریشان تھا۔ میں نے کہا بس آگیا ہوں۔اللہ کے فضل سے صحیح سلامت۔یہاں تو حال یہ ہے کہ گھر سے نکلو توجتنی دعائیں یاد ہیں پڑھ کر نکلو اور اپنے گریبان میں پھونکو۔ پھر جب خیر خیریت سے گھر واپسی ہوتو خیر خیرات دو کہ صحیح حالت میں پہنچ گئے۔ پہلے دو میچوں میں فتح کے بعد ہم لوگوں نے شہر کی فضا کو گولیوں کی تڑ تڑ سے چھلنی کر دیا تھا۔ کسی کو خدا کا خوف نہ تھا کہ ہماری کوئی ایک گولی کسی شہری کی جان لے سکتی ہے۔مجال ہے کہ کسی کا دل نرم ہوا ہو۔سوچے کہ ہماری اس گولی کی چنگاری سے کسی کے نشیمن میں آگ لگ سکتی ہے۔بلکہ دن کو بھی اگر تھوڑی فائرنگ ہو تو معصوم کہتا ہے او پاکستان جیت گیا۔ پھر جس دن میچ نہیں بھی ہوتا۔مگر فائرنگ ہو تواس کا یہی کہنا ہوتاہے اوپاکستان جیت گیا۔کیونکہ اس کے ننھے ذہن میں فائرنگ کی آوازوں نے گھر کر لیا ہے۔ میچ جیت جانے کی خوشی سب کو ہے۔ سپورٹس پوری دنیا کے ساتھ تعلقات اچھے کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔پھر خود ہم پاکستانی بھی جب پاکستان کا میچ ہو تو آپس میں متفق اور متحد دہو جاتے ہیں۔ آپس کی رنجشیں بھلا کر ہم اس وقت تک کہ میچ ختم نہ ہو ایک پلیٹ فارم پر اور ایک پیج پر آن بورڈ ہوتے ہیں۔تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی مخالفت بھلا کر پاکستان کی کامیابی پر مبارکباد کے پیغامات دیتی ہیں۔ مگر ہماری ہوائی فائرنگ کو کسی بھی موقع پر جائز نہیں قرار دیا جاسکتا۔۔اب معصوم کو کون سمجھائے کہ دن کے وقت ہونے والی فائرنگ جس دن میچ نہ ہو کسی کی اپنی خوشی کی تقریب میں ہونے والی فائرنگ ہے۔ اب اس قسم کے بچے کل کو بڑے ہوں گے ان کے دماغ میں پستول سے محبت جاگے گی وہ پستول حاصل کرنے کی تمنا کریں گے۔ فائرنگ او رفائرنگ کے ماحول سے پیار کریں گے۔ خوشی کے موقع پر یہ لوگ بڑے ہو کر فائرنگ کرنا سیکھ جائیں گے۔ جیساکہ اب فائرنگ کرنے والوں نے اپنے بڑوں سے یہ سب کچھ سیکھ رکھاہے۔جب دو ایک دن پہلے کے میچ میں بابر نے ہندوستا ن فتح کیا تو اس وقت جو فائرنگ ہوئی ہر چند خوشی کااظہار تھا۔ مگر قومیں اپنی خوشیاں اس طرح تو نہیں مناتیں۔ہمارے ہاں تو ہوائی فائرنگ کرنا ایک عام سی بات ہے۔کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو وہ گلی میں آکر پستول کی نال آسمان کی طرف کر کے اپنی اس شعلے اگلتی بندوق کو دیکھ کر پھولے نہیں سماتا۔خوش کی تقاریب میں فائرنگ تو ہماری ناسمجھی کی سب سے بڑی نشانی ہے۔کسی کے ہاں عقیقہ ہو توفائرنگ کے بغیر ان کا گذارا نہیں۔ پھر کہیں کوئی بارات دلہن کو لے کر گھر واپس آئے خواہ دن کے دو بجے ہوں یا رات دو بجے کا وقت ہو ہم نے فائرنگ کرنا ہوگی۔