گنجان گنجل اور گنجلگ 

مینا بازارسے لے کر گھنٹہ گھر اور پھر قصہ خوانی کا سفر کرنے کیلئے بہت بڑا دل چاہئے۔اس ایک میل فاصلے کیلئے کم از کم ایک گھنٹہ درکار ہے۔ہم لاہوری درازے سے انٹر ہوئے اور تحصیل گورگھٹڑی سے ہوکر بازار کلاں کے محلہ سیٹھیان میں رشہ داروں کے گھر پہنچے۔سوچا کہ اب آئے ہیں تو کیوں نہ قصہ خوانی میں دو چار کام نپٹا لیں۔مگر جوں گھوڑے کو مینا بازار کے رخ پر ڈالا تو خود ہوائی گھوڑے نے انکار کر دیا۔ میں آگے نہیں جا سکتا۔حالانکہ لوہے کا گھوڑا ہے۔ حیران ہوا کہ اس کو بھی زبان مل گئی۔ مگربیچارہ کتنا برداشت کرتا۔ انکار کرنا ہی تھا۔ہم جانا چاہتے تھے۔مگر پیدل بھی مشکل تھا۔اس لئے  یوٹرن کر کے واپس چڑھائی چڑھ کر تحصیل گیٹ کے پہلو سے کنی کترا کر لاہوری دروازے سے باہر جانے کو آمادہ ہوگئے۔دوسری بار ایسا ہی ہواتھا۔ ہم قصہ خوانی نہیں جاسکے۔سوچاکہ کریم پورہ کی پتلی گلی سے نکل جائیں۔مگر وہی صورت حال اور خراب صورت حال۔کیونکہ راستے میں گھنٹہ گھر اور چوک یادگار نے پھربھی آنا تھا۔پھر خیال آیا کہ کالے دی کھوئی سے ہوکر یکہ توت اور محلہ جٹاں سے ہوتے ہوئے تاریخی علاقے چوک ناصر خان  سے کوچی بازار اور پھر شہاز داکُھوپھر تاریخی بازار قصہ خوانی کو جا لیں۔مگراتنے رش میں کون جائے اور اتنا دل کون لائے۔جانے اتنے لوگ کہاں سے آئے۔جانے یہ گاڑیں کہاں سے نکل آئیں۔اتنے زیادہ رکشے موٹرسائیکل اورلاتعداد بے حساب چنگی چی اور سوزوکیاں کہاں سے چلی آئیں۔ جیسے راتوں رات شہر کی نئی شکل و صورت نے بسیراکر لیا ہو۔ انتظام کرنے والا سرکاری عملہ ساری رات اس دیوار کو پتلا کرتا ہے اور پھر صبح وہی صورت وہی دیوار اور نئے سرے سے موٹی ہو جاتی ہے۔۔آن کی آن میں اس شہرِ گل عذاراں کے باشندوں میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا کہ ہماری عقل تو کہیں گھاس چرنے چلی گئی ہے۔دماغ ماؤف ہونے لگا۔ سوچ سوچ کر حیرانی کے سمندر میں غوطے کھانا پڑتے ہیں۔ذہن کودن اور غبی ہونے کو بس تیار ہے۔ہم خود اپنے کو گاؤدی لگنے لگے ہیں۔ہمیں تو سب نقشہ الٹا ہی نظر آنے لگا ہے۔مجنوں نظر آنے لگی ہے اور لیلیٰ نظر آنے لگا ہے۔ابھی اتنے برس بھی تو نہیں بیت گئے‘رش کے ساتھ رش ہے۔ کوئی جاتا ہوا نظر نہیں آتا۔آواز اگردو توسن نہیں پاتا۔ ہر نئے دن کے ساتھ شہر کی بارڈ لائن دور ہوتی چلی جا تی ہے۔گاؤں کے گاؤں اور پرگنے اس شہر کی میونسپلٹی کی حدود میں شامل ہو رہے ہیں۔پہلے فصیل شہر کے اندر شہر تھا اب اس کا جغرافیہ یہ ہے کہ پشاو رکے چاروں طرف پشاور ہے۔زمینیں جائیدادیں خریدی جا رہی ہیں بنوائی جا رہی ہیں۔اینٹ پہ اینٹ رکھے مکانات زیرِ تعمیر ہیں۔شہریوں کی طلب میں بہت شدت سے اضافہ ہے۔ پلاٹ کی خرید و فروخت تیزی سے جاری ہے پہلے مٹھی میں آجانے والے اس شہر کے سولہ دروازوں کے باہر ایک سرکل میں ویران سڑک سٹی سرکلر روڈ کے نام سے بچھا دی گئی۔ پھر اس پر بھی آبادی تیزی سے غلبہ پانے لگی۔ شہر مزید پھیلنے لگا۔ حددو پھلانگ کر ایک دوسرے سے اوپر اچھلتے ایک دوسرے کو کراس کرنے لگیں تو اس سرکلر روڈ کے پار ایک اور دائرے میں کھینچی گئی رنگ روڈ کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ اٹھائیں کلو میٹر یہ گول دائرہ سڑک سرکلر روڈ کو بھی ثابت نگل گئی ہے۔جیسے تالا ب میں کنکر پھینکو تو دائرے بنتے ہیں۔ اس طرح یہاں جتنے اور لوگ آکر رہائش  اختیار کر رہے ہیں اتنا اور گول سڑکوں کی ضرورت پیش آنے لگی۔اب رنگ روڈ کے پار ایک اور سڑک کی تعمیر ضروری ہو چلی ہے۔تاکہ آبادی کے اس اژدہے کو کنٹرول کرنے کی کوئی صورت نکالی جائے۔ نادرن بائی پاس اور جی ٹی روڈ پھر ورسک روڈ اور یونیورسٹی روڈساتھ موٹر وے سب کم پڑ گئے ہیں۔پہلے تو ایسا نہ تھا۔جانے اس شہر میں کون سا آسیب ہے۔