کرکٹ کے جاری عالمی مقابلوں (ٹی ٹوئنٹی کپ 2021ء) کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں ہوگا کہ پاکستان اپنے گروپ کے تینوں مقابلے جیت سب سے اوپر ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے گروپ میں برطانیہ سے یہ توقعات ضرور تھیں اور وہ ان پر بخوبی پورا بھی اترا ہے اور اُس کی نظریں فائنل پر ہیں۔ بالخصوص آسٹریلیا کے بعد جس طرح برطانیہ نے سری لنکا کے خلاف مقابلہ جیتا ہے‘ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ آنے والے مقابلوں میں کسی بھی ٹیم کیلئے برطانیہ کو شکست دینا آسان نہیں ہوگا۔سری لنکا کے خلاف مقابلے کی بات کی جائے تو یہ ایک ”بے جوڑ مقابلہ“ تھا جو برطانیہ کے لئے بڑا امتحان ثابت ہوا۔ ایک تو ٹاس ہارنے کے بعد اسے پہلے بیٹنگ کرنی پڑی اور بعدازاں اوس پڑنے کی وجہ سے مشکل حالات میں باؤلنگ اور فیلڈنگ بھی تاہم برطانیہ ٹیم نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے کامیابی حاصل کی۔پاکستان کی بھارت کے خلاف جیت میں ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی دیگر ٹیموں کے لئے اسباق پوشیدہ ہیں جسے مدنظر رکھتے ہوئے یہاں حریف پر شکنجہ کسنے کی ضرورت تھی تاکہ مقابل گرفت سے نکلنے نہ پائے۔ پاکستان کے برعکس سری لنکا ایسا نہیں کرپایا اور برطانیہ اپنے تجربے‘ حالات کی بہتر سوجھ بوجھ‘ دباؤ جھیلنے کی صلاحیت اور مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی حاضر دماغی کی مدد سے آخر میں کامیاب و کامران ٹھہرا۔ برطانیہ کی بیٹنگ لائن کا پہلا بڑا امتحان پیش ہوا جس میں وہ کامیاب رہے۔ مذکورہ مقابلے کے دوران برطانیہ کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس میں ہمیں دیگر ٹیمیں شدید دباؤ میں نظر آئی تھیں۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف دیکھ لیں‘ آسٹریلیا‘ جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے چند مقابلوں پر نظر دوڑائیں‘ ایسا ہی دکھائی دے گا لیکن برطانیہ نے وہ غلطیاں نہیں کیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اب تک ہمیں برطانیہ کی بیٹنگ لائن کا کڑا امتحان نظر نہیں آیا تھا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف اسے صرف چھپن رنز کا ہدف حاصل کرنا تھا۔ بنگلہ دیش کے خلاف محض ایک سو پچیس اور آسٹریلیا کے خلاف ایک سو چھبیس رنز کا تعاقب کرنا تھا اور ٹیم نے ان تمام مواقع پر جیت باآسانی یقینی بنائی تاہم سری لنکا کے خلاف ابتدائی دھچکوں کے بعد پہلی بار برطانیہ کی بیٹنگ لائن کو کڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔برطانیہ کے برعکس سری لنکا ورلڈ کپ میں بجھا بجھا نظر آ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف پہلے میچ میں زبردست جیت کے باوجود اِسے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکستیں سہنا پڑیں۔ برطانیہ کے خلاف تو اسے جیت کے بھرپور مواقع ملے لیکن اس نے انہیں ضائع کیا اور اب اس کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔سری لنکا سے کہاں چوک ہوئی؟ کیا کمی رہ گئی جس کی وجہ سے نہ صرف برطانیہ بلکہ اس سے پہلے بھی ہونے والے مقابلوں میں شکست اس کے نصیب میں آئی؟ اس پر کرتا دھرتاؤں کو کچھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کھیل میں جیت کے لئے یقین اور اسے حاصل کرنے کی تڑپ کی ہے۔ اب تک کے مقابلوں میں مختلف یعنی غیریقینی پر مبنی نتائج دبئی کے مقابلے میں شارجہ گراؤنڈ میں زیادہ نظر آئے ہیں۔ دبئی میں تمام ہی مقابلے ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں نے جیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹاس کا کردار بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ زیادہ تر ٹیموں کی کوشش ہے کہ ٹاس جیت کر پہلے حریف کو کھیلنے کی دعوت دیں اور پھر شام کو باؤلنگ کے لئے مشکل حالات کی وجہ سے حریف کی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باآسانی ہدف کا تعاقب کرلیں مگر شارجہ میں ہوئے آخری چھ میں سے تین میچوں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم جیتی ہے۔ برطانیہ کے علاوہ ویسٹ انڈیز اور افغانستان بھی ایک‘ ایک بار اسی میدان پر اپنے ہدف کا کامیابی سے دفاع کرچکے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ یہ کوئی پکا فارمولہ نہیں ہے اگر کوئی بھی ٹیم برطانیہ کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرے تو صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل کر سکتی ہے۔ موجودہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ دباؤ سہنے کا کھیل ہے جس ٹیم نے حالات کا مقابلہ کرنا اور دباؤ میں کھیلنے کی صلاحیت جتنی زیادہ ہے اتنی ہی وہ ٹیم کامیاب رہتی ہے انگلینڈ کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ٹیم کے کھلاڑی ہر طرح کے حالات میں کھیلنے کے عادی ہے اور بیٹنگ ناکام ہو تو باؤلنگ سے مقابلہ کیا جاتا ہے جبکہ باؤلنگ کی کمزوری کو بیٹنگ کے ذریعے کور کرنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔