زوال 

ما ضی پر ستی ایک بیما ری ہے اس نفسیا تی عارضے کو انگریزی میں نا سٹلجیا کہتے ہیں اس بیما ری کا مریض زما نہ حال سے نا لا ں رہتا ہے ما ضی کو یا د کر تا ہے اور ہر وقت ما ضی کی یا دوں میں کھو یا رہتا ہے اگر آپ کہہ دیں آج مو سم خو شگوار ہے تو وہ 100سال پہلے کے مو سم کی کہا نی سنا ئے گا آپ اگر کہہ دیں آج پا کستان کو بڑی کا میا بی ملی ہے تو وہ 50سال پہلے کی کسی کا میا بی کا قصہ لے کر بیٹھ جا ئے گا اس کو زما نہ حال کے ہر بڑے کا م سے زما نہ ما ضی کا چھوٹا واقعہ بھی اچھا لگے گا۔ آج کل یہ بیما ری بہت عام ہے شہر کے بڑے محلے کے لو گوں کو عوامی مسا ئل کے حل پر تجاویز دینے کیلئے مقا می سکول کی عما رت میں بلا یا گیا سر کاری حکا م اور اخبار نویس بھی مو جو د تھے محلے کے 20عما ئدین کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی ان میں سے 18عما ئدین نے اپنی تقریروں میں گذرے ہوئے دور کے ملک صاحبان‘حا جی صاحبان، مولوی صاحبان اور بی ڈی کے ممبروں کا ذکر کیا ان کی تقریر وں کا خلا صہ یہ تھا کہ ہمارا محلہ قیا دت سے محروم ہے مو جو دہ قیا دت مسا ئل حل کرنے میں نا کام ہوگئی ہے۔ جن دو معززین نے ما ضی کی ”درخشان روایات“ کا ذکر نہیں کیا ان کا تعلق ”مو جودہ قیادت“ سے تھا یہ ایک محلے کی کہا نی نہیں۔ ہر گاؤں کی کہا نی ہے۔ سطح سمندر سے 9000فٹ کی بلندی پر واقع پہا ڑی گاؤں کی آبادی اگر ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہے تو ان میں سے 900لو گ گزر ے ہوئے ممبروں اور ملکوں کو یا د کر کے مو جو دہ قیا دت پر تنقید کرتے ہیں۔ شہر کے محلے میں واقع سکول کی تقریب میں باہر سے آیا ہوا مہمان بھی بیٹھا تھا مہمان جہا ندیدہ اور تجربہ کار تھا اُس نے محلے کے عما ئدین کی اجازت سے اظہار خیال کر تے ہوئے بڑے پتے کی ایک بات کہی اُس نے کہا آپ لو گ شکر ادا کریں آپ کو آزاد وطن ملا ہے ہمارے آباؤاجداد غلا می کی زند گی گزار کر فوت ہوئے آپ مو جو دہ دور کی جن محرومیوں کا ذکر کرتے ہیں ان کا تعلق صرف آپ کے محلے سے نہیں یہ محرومیاں ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر محلے میں پائی جا تی ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمارا طرز بود وباش بدل گیا ہے ہماری ضروریات بڑھ گئی ہے 100سال پہلے یا 50سال پہلے ایسی ضروریات نہیں تھیں بجلی اور گیس کے مسا ئل نہیں تھے۔ وائی فائی اور فو رجی کا نا م کسی نے نہیں سنا تھا۔نہ ڈالر کے ریٹ سے کسی کو سرو کارتھا نہ سٹاک ایکسچینج سے کسی کا لینا دینا تھا۔ہم کو مو جود ہ دور کی بیش بہا نعمتوں پر ہر وقت شکر ادا کرنا چا ہئے۔ مہمان مقرر نے اگر چہ تصویر کا دوسرا رخ سامنے رکھ دیا لیکن یہ بھی پورا سچ نہیں زوال آیا ہے اور زوال کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ مختار مسعود کی کتاب آواز دوست 1976ء میں پہلی بار شائع ہوئی اسکا ایک باب ”آٹو گراف بک“ ہے مصنف لکھتا ہے کہ میرے والد کی وصیت تھی ہر کسی کا آٹوگراف نہ لیا کرو صرف بڑی شخصیات کا آٹوگراف لیا کر و۔ انہوں نے 1976ء میں آٹو گراف بک کو بند کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ زمین بانجھ ہو گئی ہے دھر تی نے عظیم شخصیات پیدا کر نا بند کردیا ہے وہ ایوب خا ن اور بھٹو کی حکو متوں میں بڑا افسر تھا مگر اُس نے ایوب خا ن اور بھٹو کا آٹو گراف نہیں لیا وہ لکھتا ہے کوئی ٹا ئن بی اور عطا ء اللہ شاہ بخا ری جیسی شخصیت نظر آتی تو آٹو گراف بک کو بند نہ کر تا۔ محلے کے بزرگ اپنے محلے میں قیا دت کے زوال کا رونا رورہے تھے ہم نے سوچا یہ مسئلہ محلے سے کہیں بڑھ کر پھیلا ہواہے۔ عالم اسلا م کی قیا دت زوال پذیر ہے۔ عظیم شخصیات کا باب بند ہوا بات ہمارے ملک، محلے اور گاؤں پر ختم نہیں ہوتی پوری دنیا بانجھ پن کا شکار ہے۔تاہم پھر بھی دیکھا جائے تو مایوسی کی کیفیت بھی طاری نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہر دور کی مناسبت سے ہر مسئلے کا حل نکالنے والے موجود ہوتے ہیں اور نوجوان قیادت بھی اس صفت سے خالی نہیں ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں ایسے قائد میسر ہوں جو مشکل حالات سے اقوام کو نکالیں۔