چلتے چلتے 

انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔اسے زندگی گذارنے کا سلیقہ آ جاتا ہے۔مگر زندگی گذر جانے کے بعد وہ اس مرحلہ پر پہنچ پاتا ہے۔شروع کی عمر میں تو اسے کسی طرف کا ہوش ہی نہیں ہوتا۔عمر کی اس پگڈنڈی پر چلتے چلتے وہ بہت دور نکل آتا ہے۔جہاں سے واپسی کا سفر ممکن ہی نہیں ہوتا۔ بس آگے جانا ہے اور جاتے رہنا ہے۔ پچپن پہ پہنچ کر بچپن کو پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا جا سکتا۔کیونکہ عقب میں دیکھنا لا حاصل ہوتا ہے۔پھر پیچھے دیکھنے سے گردن میں بل پڑجاتے ہیں۔ پیچھے دیکھے یا آگے دیکھے۔ اگر ماضی پر نظررکھے تو اس طرح زندگی نہیں گذر پاتی۔ زندگی تو فارورڈ جانے کا نا م ہے۔بس گذرنے کی اور گذر جانے کی کہانی ہے۔خواہ آگے سنگلاخ چٹانیں ہوں یا سبزہ زار ہو یا چٹیل میدان یا ریتلے ساحل ہو ں شہر ہوں زندگی کے توانا حوالے اور کچھ یا تمام یا زیادہ تر اُداس اور کمزور لمحات ہوں۔ قدموں نے رکنا نہیں ہوتا۔ اس گذرجانے والی عمر میں جب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے تو ہم جسم کے لحاظ سے کہیں کے نہیں رہتے۔ ایک اُداسی باقی بچ جاتی ہے۔ زندگی سے لالچ نہیں رہتی۔ اچھے برے کی تمیز کی طرف خیال چلا جا تا ہے۔بلکہ بس اچھا دیکھنا اور یہ سب کچھ ذہن و دماغ میں فوکس ہونے لگتے ہیں۔اس موقع پر ایک ہی چارہ رہتا کہ ہم نوجوان نسل کو ہدایت دیا کریں۔ مگر کہاں ایسا تو ہماری جوانی کے زمانوں میں بھی نہیں ہوا۔پھر اب کیسے ہوگا۔ پرانی اور نئی نسل کے درمیان یہ خلیج یہ فاصلہ یہ گڑھا پاٹ نہیں سکتے۔ہر دور میں ایسا ہواہے۔ کیونکہ نوجوان اپنا تجربہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ پھر وہ نصیحت بھی تب ہی پکڑیں گے جب خود ان کے اوپر بیت جائے۔ورنہ دوسرے کی بات کان کو تولگتی ہے دل کو جو نہیں لگتی۔اسی کو تو جنریشن گیپ کہتے ہیں۔ بڑوں کو نصیحت سے سروکار ہوتا ہے۔مگر جوان لوگ نصیحت تو سن سکتے ہیں۔لیکن وہ اپنے نقصان کو برداشت کرنے اور اس پر پاؤں رکھ کر آگے جانے کا بلند عزم دل میں لئے ہوتے ہیں۔ہرچند کہ وہ اپنا نقصان کسی صورت میں نہیں چاہیں گے۔مگر ان کی نفسیات میں جس کی ان کو خود خبر نہیں ہوتی یہ بات پختہ ہوتی ہے کہ کچھ ہوا تو دیکھ لیں گے۔ مگر بزرگوں کے پاس دیکھ لیں گے کا وقت نہیں ہوتا۔وہ جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ صرف اور صرف اچھا دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔اس ڈھلتی ہوئی عمر میں کسی چیز کی سمجھ تو آجاتی ہے او رخوب آتی ہے۔گویا جب دانت ہوں تو چنے نہیں ہوتے اور جب دانت نہ ہوں تو چنے ہوتے اور وافر ہوتے ہیں۔جب کسی شئے کے بارے میں جانکاری حاصل ہو جاتی ہے تو عمر کا پیمانہ تنگ محسوس ہونے لگتا ہے۔بقول بہادر شاہ ظفر”نشہ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو۔عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا“۔اس موقع پر زندگی کا دامن تنگ ہو جاتا ہے۔عمر کا دامان تو ہر لمحہ تنگ ہی ہوتا ہے۔مگر اس کی تنگی کا احساس عمر کے ڈھل جانے کے بعد ہوتا ہے اور شدت سے ہوتا ہے۔ہزاروں برس عمر بھی ہو تو کم لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی بہت خوبصورت ہے۔کوئی آدمی بھی ایسا نہ ہوگا جو زندہ نہ رہنا چاہتا ہو۔ہرچند جوانی کی خواہش نہ کرے مگر اپنے بچوں اور آگے ان کے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے جوان ہوتا دیکھنا چاہے گا۔جس کی جو بھی دنیا ہے خواہ محدود ہے یا وسیع اس کیلئے خوبصورت ہے۔کوئی اگر اپنی زندگی کے کڑوے ہونے کی شکایت کرے گا۔مگراس زندگی سے نجات کا نہیں سوچے گا۔کیونکہ جو سانس ملے ہوئے ہیں وہ بھی انعام ہیں۔اگرچہ کہ کوئی شاعر کہہ دے ”زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا“ مگر اس بری حالت کے باوجود مرنے کا خواہش مند نہیں ہوگا۔ہاں مگر عمر گذر جانے پر بہت سیکھ لیا جاتا ہے۔ہاں مگر اگر یہ مہارت جوانی میں ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ زندگی کا یہ احساس کسی بھی علم کے حاصل کرنے کسی ہنر میں یکتا ہوجانے پر اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب ہمیں گذر جانے والی عمر میں اس کی ضرورت نہیں رہتی۔بعض چیزیں جوانی کے ساتھ حاصل ہوتی ہیں اور بعض چیزیں بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ساتھ مل جاتی ہیں۔ مگر دونوں کو آپس میں نہیں ملایا جا سکتا۔ بوڑھے ہاتھ پاؤں ہوں تو عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی چوکے چھکے نہیں لگا سکتا۔ہرچند علم حاصل ہو جاتا ہے۔اتنا کہ سی ایس ایس میں اول نمبر پر آنے کی صلاحیت ہو۔مگر اس امتحان کیلئے عمر کی جو حد متعین ہوتی ہے وہ جو نہیں رہتی۔”اک عمر میں ہوتی ہے بصیرت پیدا۔ افسوس ہوتا ہے کہ یہ جو کسی بھی فیلڈ میں مہارت حاصل ہوئی وہ بڑی دیر میں ملی۔کاش پہلے حاصل ہوتی تو میں دنیا فتح کر لیتا۔اس لئے بزرگوں کو اکثر اوقات جوانوں کی حرکات و سکنا ت ان کے روزمرہ کے معمولات میں نقص نظر آتے ہیں۔ پھر وہ نقص حقیت میں ہوتے بھی ہیں۔ مگر جوانی کے اندھے پن میں جوان خون بوڑھوں کو دماغ سے خالی سمجھتاہے۔مگرنو جوانوں کے بارے میں بابوں کی پیشگوئیاں تجربے کی وجہ سے سچ ثابت ہوتی ہیں۔