ہندوتوا کی سیا ست کا ہُنر 

آج کل بھارت کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاستدانوں کو دیکھیں یا دیگر سیاستدانوں کے بیانات اور ان کی تقریروں کے روز بروز بدلتے لہجوں اور باتوں کو پر کھنے کی کو شش کریں تو یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ سیا ست علم بھی ہے ہنر بھی اور ہنر کا مادہ علم پر حاوی ہے ایک سیا ست دان ایک شہر میں جو بیان دیتا ہے دوسرے شہر میں اس کے بر عکس بیان دیتا ہے ایک سیا ست دان ایک ہی مسئلے پر چار چار موقف سامنے لاتا ہے اور اس پر اترآتا ہے یہ ایک ہنر ہے یہ سیا ست کا حُسن ہے جس زما نے میں سویت یو نین کے اندر سخت ترین پا بند یاں تھیں اُس دور میں ایک یہو دی پروفیسر کو سویت یو نین سے اسرائیل منتقل ہو نے کی اجا زت ملی یہو دی پرو فیسر بال بچوں کو لیکر ماسکو کے ہو ائی اڈے پہنچا تلا شی کے دوران ان کے سا مان سے لینن کا مجسمہ بر آمد ہوا حکام نے پوچھا یہ کیا ہے؟ پر و فیسر نے کہا سوال غلط ہے یوں پو چھو یہ کون ہے؟ حکا م نے پوچھا یہ کون ہے پرو فیسر نے کہا یہ لینن ہے ہمار ا نجا ت دہندہ‘ سوویت انقلا ب کا با نی‘روسی عوام کا محسن میرا لیڈر‘ میرا آئیڈیل میں اس کو یاد گار کے طور پر ساتھ لے جا رہا ہوں حکام نے اجا زت دیدی جب تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اترا پھر تلا شی کا مر حلہ آیا پھر سوال ہوا یہ کیا ہے؟ پرو فیسر نے پھر کہا سوال غلط ہے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ یہ کون ہے حکام نے پوچھا یہ کون ہے؟ پروفیسر نے کہا یہ وہ شخص ہے جس کی وجہ سے روس میں یہو دیوں کی زند گی اجیرن ہوئی یہ روسی انقلاب کا با نی لینن ہے میں ہر روز ہزار بار اس پر لعنت بھیجتا ہوں اس لئے اس کو ساتھ لا یا ہوں جب تک زندہ ہوں اس پر لعنت بھیجتا رہوں گا حکام نے اجا زت دے دی پر و فیسر کو تل ابیب میں شا یان شان گھر ملا ایک دن اس کے چا ہنے والے احباب جمع ہو ئے احباب نے دیکھا کہ ایک مجسمہ ڈرائنگ روم کی میز پر رکھا ہوا ہے احباب نے پوچھا یہ کون ہے؟ پرو فیسر نے کہا سوال غلط ہے یوں پوچھو یہ کیا ہے احباب نے پوچھا یہ کیا ہے؟ پرو فیسر نے کہا یہ دس کلو گرام سونا ہے! احباب حیراں ہوئے تم نے اس کو کیسے یہاں تک پہنچا یا پرو فیسر نے کہا ما سکو کے ہوائی اڈے پر یہ نجا ت دہندہ بن کر آیا‘ تل ابیب کے ہوائی اڈے پر یہ ملعون ٹھہرا یا گیا اب یہ میری دولت ہے احباب نے کہا آپ نے کما ل کر دیا یہ ایسا ہنر ہے جو زند گی کے ہر موڑ پر کا م آتا ہے بھارت میں ہندو توا کی سیا ست اور چانکیہ پا لیسی اس ہنر کا منہ بولتا شہکا ر ہے بھا رتی سیا ست دان یو رپ اور امریکہ جا تے ہیں تو انسا نی حقوق کا علم بردار بنتے ہیں جمہوریت کا چیمپئن بن جا تے ہیں واپس نئی دہلی پہنچ جا تے ہیں تو مسلما نوں اور سکھوں کو بنیا دی حقوق دینے سے انکار کر تے ہیں گویا انسا نی حقوق اور جمہوریت بھی یورپ اور امریکہ کو دکھانے کیلئے کام میں لا ئے جا تے ہیں لینن کے مجسمے کی طرح وہاں نجا ت دہندہ اور یہاں ملعون ٹھہرا ئے جاتے ہیں اصل حقیقت دولت ہے جس طرح بھی ہاتھ آئے لگتا ہے سیاست میں بھارتی سیاستدانوں نے یہی روش اپنائی ہوئی ہے۔