کاغذ کا اک پرزہ 

ہم آہستہ آہستہ صفائی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔حکومت کی کوشش زیادہ ہے۔ پھر ہم خود بھی گندگی پھیلانے کو برا سمجھنے لگے ہیں۔ چونکہ برا سمجھنے لگے ہیں تو یہ بہت غنیمت ہے۔اس برا سمجھنے کے بعد ہی صفائی کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔جہاں بس چلے تو شہر میں کہیں بھی گھر ہو یا باہر گند اٹھا لینا چاہئے۔ہماری خرابی یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے پر چھوڑ دیتے ہیں کہ چھوڑادوسرا اٹھائے گا۔ مگر دوسرا تو کیا تیسرا اورچوتھا بھی نہیں اٹھاتا۔یونہی پاس سے گذر جاتے ہیں۔گند پڑا رہنے دیتے ہیں۔ہاں اگر وہاں اور بہت گند پڑا ہوتا۔ پھر اس طرح کا گند گریل مزید ہوتا تو میرے دل میں یہ بات کبھی نہ آتی کہ یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا زمین پر گرا ہوا کتنا برا لگ رہا ہے۔میرے خیال کو اگر صفائی کی طرف کسی چیز نے آمادہ کیا تو وہ خود اس ہسپتال کی صفائی تھی۔اگر ہم اچھے ہوں تو ہمارا ماحول برا کیوں ہو۔ہم اگر صفائی کے عادی ہوں۔ہر جگہ صاف ستھری ہو توباہر ملکوں کی جائزہ لینے والی ٹیمیں ہمارے ہاں کیوں آئیں۔پھر اگر آئیں تودنیا کو ہمارے بارے میں صفائی کی اچھی رپورٹ دیں۔صاف ستھری جگہ کو دیکھ کر ہمیں غیرت آئے اور ہم ہاتھ میں پکڑا ہوا گند زمین پر نہ گرائیں۔ اس کے لئے قریب کہیں کوڑے کاڈرم تلاش کریں۔جہاں اس کو ٹھکانے لگا دیں۔وہ انتہائی صاف ستھراہسپتال تھا۔ صفائی کا عملہ وائپر لے کر اپنی نفری کے ساتھ صفائی میں مصروف تھا۔ فرش پر پانی بہا کر اس کو مزید صاف کیا جا رہا تھا۔ دن میں یہاں مختلف اوقات میں صفائی کی جاتی ہے۔جی ہا ں آپ سمجھ گئے ہوں گے وہ پرائیویٹ شفا خانہ تھا۔جدیدٹیکنالوجی سے آراستہ تھا۔ وہاں میڈیسن کارنر کی کھڑکی پر کسی نے میڈیسن لی ہوگی۔فارمیسی کی رسید وہیں کاؤنٹر کے نیچے پھینک کر چلتا بنا۔ کیونکہ اس کو اپنے مریض سے کام تھا۔شاید اسے کسی ہنگامی صورتِ حال کا سامنا ہو۔مگر ترقی کی طرف جانے والی قوموں کی علامات یہ نہیں ہوتیں۔وہ ہر صورت میں اپنے ہوش میں ہوتے ہیں۔ ہر چند ان کا مریض ایمرجنسی میں بے ہوش ہو۔میں نے اس پرچی پر نظر کی اور اگنور کر دیا۔ذہن کے کسی کونے سے آواز آئی چھوڑو یار اٹھا ہی لے گا کوئی میں کیوں اٹھاؤں۔ میں نے تو نہیں گرایا۔ لیکن ایک لمحے کو ہسپتال کے درو دیوار ساتھ صاف ستھرے فرش پر نگاہ گئی تو احساس ہوا کہ یہاں یہ کاغذ کا پرزہ بہت برا لگ رہا ہے۔ ضمیر نے اندر سے دل و جگر میں سیخیں منڈھنا شروع کیں۔ دل کے کسی گوشے سے آواز آئی اٹھا لو۔ سو ہم نے چپکے سے وہ گند اٹھایا اور پاس پڑے پلاسٹک کے ڈرم کے نیچے پاؤں سے دبایا ڈھکناکھلا وہاں گند گرایا۔پہلے تو ٹاپ ٹین کے گندے شہروں میں ہمارے شہر کا شمار تھا۔مگر اب یہ نمبرنیچے چلا گیا ہے۔ گندگی والے شہروں کی الگ سے فہرست ہے اور آلودہ ترین شہروں کی جدا فہرست مرتب ہو ئی ہے۔یہ تو اچھا ہوا کہ دنیا کی نئی رینکنگ میں ہمارے شہر کا نام سب سے اوپر نہیں۔وگرنہ تو ہم اسی شناخت سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔مگر اوپر نہیں تو کیا ہوا۔اس شمار میں تو ہے۔اس قطار میں تو ہے۔یوں تو سارے شہر میرے ہیں۔مگر خاص میرا شہر توپشاور ہے۔جس کو ٹاپ کے آلودہ ترین شہروں میں گنا گیا ہے۔ پھر گندگی کے لحاظ ہے ہم کون سے دوسرے شہروں سے کم ہیں۔اگر ہمارے پایے کا کوئی نہیں تو ہم اپنا نمبر تو کسی کو چھیننے نہیں دیتے۔ہماری کوشش تو ہے کہ ہم اپنے مقام سے نیچے گرنے نہ پائیں۔جی ہا ں ابھی دوبارہ سروے ہوا ہے۔لاہور کو پہلا نمبر ملا ہے۔آلودگی میں اب اس کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں رہا۔ ہاں اگردھواں اور سموگ بکھیرنے میں محنت نہ ہو تو یہ پہلا وکٹری نمبر کسی اور کے گریبان میں ڈالا جاسکتا ہے۔اگرپھر نہ ہوا تو پہلی پوزیشن تو اس کی کوئی چھین نہیں سکے گا۔پھر اس ترقی کی دوڑ میں کوئی کسی سے پیچھے کیوں رہے۔خیر سے کراچی ٹاپ ٹین میں ٹین پوزیشن لے گیا ہے یہ دھوئیں کس دشمن کی سازش نے یہاں پھیلا رکھے ہیں۔دنیا بھر میں تلاش کرو تو مجرم نہیں ملیں گے۔ ہم تو خود کیلوں کے شاپر سے نکال نکال کر کیلے کھاتے ہیں اور گاڑی میں بیٹھے اپنے بال بچوں کو بھی کھلاتے ہیں۔پھر جب شاپر چھلکوں سے بھر جائے تو گاڑی کی کھڑکی کا شیشہ کھول کر باہر صاف ستھری اور چوڑ ی چکلی سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔دنیا جہاں کا کاٹھ کباڑاور گائے بیل بھینسوں کا گوبر گاڑیاں بھر کرلاتے ہیں اور نہروں کے پانی میں گرا دیتے ہیں۔جیسے یہ نہر نہ ہو کوڑے کا ڈ.ھیر ہو۔یہ سب کیا دھرا کس کا ہے۔ہماراخود کا ہے۔ ہمارے شہر واسیوں کا اس میں سارے کا سارا قصور ہے۔