افغانستان ناممکن کو ممکن (اپ سیٹ) کر سکتا تھا لیکن اُس نے قبل ازیں مقابلوں کے برعکس ناقابل یقین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بھارت نے ناممکن کو ممکن (اپ سیٹ) کر دکھایا جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُس کی ٹیم ’واپسی (کم بیک)‘ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے! ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے سلسلے میں افغانستان اور بھارت کے درمیان مقابلہ (تین نومبر) کے موقع پر افغانستان کی طرف سے کھیلنے والی ٹیم نہ تو افغانستان کی دکھائی دی اور نہ ہی بھارت کی طرف سے کھیلنے والے کھلاڑی وہی بھارتی ٹیم تھی جو اِس سے قبل مسلسل ہار رہی تھی جبکہ افغانستان اچھے کھیل کیلئے شہرت پا چکا تھا۔ بھارت کے خلاف کھیلنے والا ’افغانستان‘ وہ نہیں تھا جس کی آمد کا نقارہ سکاٹ لینڈ کے خلاف میچ میں سنائی دیا تھا‘ جس کی جارحیت نمیبیا کو روند گئی اور جس کی مزاحمت نے پاکستان کو آصف علی کے کرشمے پہ انحصار تک لا چھوڑا تھا۔ ون ڈے ورلڈ کپ میں جو افغان ٹیم دکھائی دی‘ وہ کسی بھی طور سے اپنے اجزا کا مجموعہ نہیں۔ ستارے سبھی موجود تھے مگر قیادت ملک کی جغرافیائی سیاست کی نذر ہو چکی تھی۔ اصغر افغان نے اچانک ’استعفیٰ‘ دے دیا تھا اور ورلڈ کپ جیسے مقابلے میں نئے کپتان گلبدین نائب کا ڈیبیو ہو رہا تھا۔ نئی ٹیموں کیلئے عالمی درجہ بندی (رینکنگ) میں جلد ترقی پانا شاید اس قدر مشکل نہ ہو جتنا بڑے مقابلوں (ایونٹس) میں شرکت سیکھنا۔ یہ طرزعمل (اپروچ) حاصل کرنے میں خاصا وقت اور تجربہ خرچ ہوتا ہے کہ وہ یہاں صرف بڑی ٹیموں کا ’رن ریٹ‘ بہتر کرنے نہیں آئے۔ اس اعتبار سے جاری ٹی ٹونٹی عالمی مقابلوں (ورلڈ کپ 2021ء) میں افغان ٹیم بہت پختہ نظر آئی۔ اپروچ بہت مثبت مگر ضرورت پڑنے پہ دفاع کا بھی مضبوط اظہار اور بیٹنگ میں جارحیت ایسی کہ مثال دینے کو صرف ویسٹ انڈین استعارہ ہی ملے لیکن بھارت کے خلاف تو گویا افغان ٹیم اپنا کھیل ہی بھول چکی تھی اور افغان کھلاڑیوں نے اپنی شہرت کا بنا بنایا محل اپنے ہاتھوں مسمار کر دیا۔ یہ وہ ’افغانستان‘ ہرگز نہیں تھا جو ٹورنامنٹ کے اوائل میں نظر آیا۔ باؤلنگ یکسر اپنے معیارات کی نفی کر رہی تھی۔ فیلڈنگ مضحکہ خیز حد تک سست اور بیٹنگ اپنے ہی پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کو بے تاب نظر آئی۔ شاید ہی ٹی ٹوئنٹی کے کسی مقابلے کو دیکھ کر پاکستانی اور افغان شائقین کرکٹ کو اِس قدر مایوسی ہوئی ہو‘ جس قدر بھارت کے خلاف مقابلہ دیکھ کر ہوئی حالانکہ افغان ٹیم کے پاس ٹورنامنٹ کا بہترین سپن اٹیک ہے۔ راشد خان‘ نبی اور مجیب زدران جیسے سپنرز کے سامنے متحدہ عرب امارات کی وکٹیں ہیں جو سپنرز کی جنت کہلاتی ہیں۔ زازئی‘ گرباز اورشہزاد جیسے بلے باز ہیں جو دنیا بھر کی لیگز کا تجربہ رکھتے ہیں اور کسی بھی باؤلر کے اعصاب پہ سوار ہونا بخوبی جانتے ہیں۔ جس طرح کا آغاز افغانستان نے ٹورنامنٹ میں کیا‘ اُس سے توقع ہو چلی تھی کہ اب یہ ٹیم ورلڈ کپ میں بڑی ٹیموں کا سامنا کرنا سیکھ چکی ہو گی اور گروپ کی تین بڑی ٹیموں کے ساتھ میچز میں مقابلے یک طرفہ نہیں ہوں گے۔ مدمقابل بھارت تھا‘ جو بقا کی جنگ لڑنے اترا اور اس کی باؤلنگ پچھلے دو میچز کے اعداد و شمار کو بھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اوپنرز رنز نہیں کر پا رہے تھے۔ مڈل آرڈر کو ترتیب سجھائی نہیں دے رہی تھی اور آل راؤنڈرز زندگی کا بوجھ بنتے جا رہے تھے۔ پہلے دو میچز میں کوہلی صحیح الیون منتخب نہ کر پائے اور نتائج وہی نکلے جو ایسی بے جوڑ سلیکشن سے نکل سکتے ہیں۔ افغانستان بمقابلہ بھارت کے مقابلے میں اوس نے بھی اچھا خاصا کردار ادا کیا اور میچ کو بھارت کے حق میں کر دیا کیونکہ گیند سنبھالنا مشکل بھی ہوا مگر تب تک افغان بیٹنگ کی لاج رکھنے والے سبھی چنیدہ نام ڈریسنگ روم میں واپس پہنچ چکے تھے۔ پاور پلے میں بمراہ اور بیچ کے اوورز میں ایشون نے افغان اننگز کی کمر ایسے توڑی کہ پھر سنبھلنے کا موقع محال تھا۔ بھارت کیلئے یہ فتح پوائنٹس کے اعتبار سے تو ضروری تھی ہی لیکن جیت کے فرق (مارجن) نے یہ بھی یقینی بنا دیا کہ اگر کیویز اگلا میچ ہار جاتے ہیں تو کم از کم رن ریٹ کے معاملے میں کوہلی کی ٹیم کو اب زیادہ پریشانی نہیں رہے گی اور پھر اہم ترین مرحلے (سیمی فائنل) میں رسائی کے امکان کے ساتھ بھارت نے اپنی درست ٹیم کا انتخاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف میچ کے بعد برسائے گئے سبھی تنقیدی تیر واپس ناقدین کی جانب پلٹا دیئے ہیں۔