شہر کا پھیلاؤ

شہر جہاں جہا ں پھیل رہا ہے وہاں درخت جو راستے میں زحمت ہیں انھیں کاٹا جا رہا ہے۔پھر انھیں بیدردی سے زمین بوس کیا جا رہا ہے۔ہمارا درختوں کے ساتھ بے پروائی کا یہ سلوک اپنے آپ میں آئینہ ہے کہ ہم فطرت سے پیار کرنے والے نہیں۔ہم مادیت پرست ہیں۔ ہمیں مال و اسباب سے غرض ہے۔ پیسے بنانا ہمارا شعار ہے۔کیونکہ پیسے کمانا اور ہے۔دونوں میں بہت فرق ہے۔جو فطرت سے پیار نہیں کرتے فطرت بھی ان کو فراموش کر دیتی ہے۔پھر وہ سخت دل بن جاتے ہیں۔ان کی سوچ وہ نہیں رہتی جس میں کسی خوبصورتی کا گمان ہو۔ کیونکہ سوچ کے حسین ہو جانے سے اپنا ماحول خوبصورت بن جاتا ہے۔اس وقت ارضِ پاک کے ہر گوشہ میں تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔پھر تعمیر کوئی غلط کام تو نہیں۔ کیونکہ خرابی سے تعمیر بدرجہا بہتر ہے۔ مگر ہم تعمیرکے بہانے درختوں کو کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔یہ بہت بڑا ظلم ہے۔جو اپنے ہم وطنوں ہی سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے رہنے والے والوں کے ساتھ ہے۔درختوں کو کاٹتے ہوئے ہم اپنی سانسوں کی ڈور کو خود دنوں ہاتھوں سے کھینچ کر توڑ دیتے ہیں۔موسم کے روٹین سے ہٹ کر بدلاؤ ہماری انھیں حرکات کی وجہ سے ہیں۔جہاں گرمی کی ضرورت ہے وہاں گرمی دیر سے چھا رہی ہے۔ جہاں مقررہ تاریخوں میں سردی کا آنا ہو وہاں سردیاں نہیں آرہیں۔اس سے ہم انسانوں کو نہ صرف اپنے وطن میں نقصان ہے بلکہ ہمارایہ درختوں کا کاٹ کر رکھ دینا پوری دنیا کیلئے نقصان دہ ہے۔ اب سردی کے موسم کا آغاز ہو گیا ہے۔لکڑیاں کا ٹ کر لائیں گے اور خوب الاؤ روشن کر کے جلائیں گے۔درخت اگر نہ کاٹیں اور ان کی شاخیں کاٹ لیں تو کم از کم درخت کی تو بچت ہو۔مگر ہمارے بھائی بند درخت ہی کو جڑ سے اکھاڑ لیتے ہیں۔پھر لالچ نے جو اندھا کر دیا ہے۔اپنے کھیت کھلیاں اور باغات کو ڈھا کر انھیں چٹیل میدانوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔کیونکہ کھیت تو اتنی وافر رقم نہیں دے سکتا۔ کیوں نہ وہاں چھوٹے چھوٹے پلاٹ بناکر بیچے جائیں۔ پھر اس طرح مال کھرا کیا جائے اور ہڑپ کیا جائے۔ ٹھیکیدار کے ساتھ مل کر درختوں کی لاشیں گرا کر کچھ روپوں کے حاصل کر نے کو اتنا بڑا ظلم روا رکھا جائے۔یہ ظلم نہ صرف ہمارے ساتھ بلکہ شہر کے رہنے والوں کے ساتھ ہے۔بلکہ کاٹنے والا اگر کلہاڑی سے درخت کاٹتا ہے تو وہ یہ کلہاڑا خود اپنے پاؤں پر مار رہاہے۔ان کو سائنس کے اصولوں کا پتا نہیں۔درخت سے اگر ایک پتہ بھی کاٹا جائے تو فطرت لرز جاتی ہے۔یہ تو ثابت درخت ہی کو نوچ ڈالتے ہیں۔جہاں درخت ہوتے ہیں وہاں کی آب ہوا صاف ستھری رہتی ہے۔کیونکہ دھواں او رحبس گیس یہ تمام درخت کے پتوں کی خوراک ہیں۔وہ انھیں کھا کر تناور ہوتے ہیں اردو کے ایک فلسفی شاعر مجید امجد اپنی ساٹھ سالہ حیات میں اپنے سامنے شاعری کا ایک مجموعہ شبِ رفتہ کے نا م سے دے گئے۔1974ء میں انتقال کیا اور اب تک 47سال گذر گئے۔ مگر ان کو اس وقت بھی درختوں کے کاٹے جانے کا افسوس تھا۔ہمیں آج نصف صدی گذر گئی مگر درختوں کی اہمیت تک کا احسا س نہیں۔ہمیں آج بھی معلوم نہیں کہ درختوں کا کاٹنے سے کیا ہوتا ہے۔مجید امجد کا شعوراس وقت بھی بیدار تھا اور ہمارا شعور اور ضمیر دونو ں کے دونوں آج بھی سوئے ہیں۔بلکہ کچھ کو تو شعور ہی نہیں ملا اور کچھ کا ضمیر مر ہی چکا ہے۔ان کی شاعری میں غزلیں بہت کم اور نظمیں زیادہ ہیں۔اسی موضوع پر ان کی ایک نظم ”توسیع ِ شہر“ ہے۔ جن میں درخت بنیادی نکتہ ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ درختوں کے کٹنے سے شہر پھیل تو جاتا ہے مگر زندگی کے معنی تنگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔لوگوں کو درختوں کی قیمت سے واسطہ ہے جوانھیں بیچ کر حاصل ہوتی ہے۔وہ سینتالیں سال پہلے کہہ گئے کہ انسان فطرت کے حسن سے مزا نہیں اٹھا رہا۔ درختوں کے کٹ جانے سے مصنوعی پن آجائے گا۔اگر درخت کا حسن نہ رہے توشاعر کا شعر فنکار کا فن کوئی معنی نہیں رکھتا۔