نان ایشوز

جس ملک میں چاروں طرف مسا ئل ہوں وہاں مسا ئل پر بحث ہوتی ہے ”نا ن ایشوز“ کو نہیں چھیڑا جا تا ہمارے دوست شا ہ جی کہتے ہیں کہ نان ایشوز یا غیر ضروری مبا حثے ہماری تہذیبی روا یا ت میں شا مل ہیں، بچہ اگر چا قو، چُھری، قینچی یا کسی اور نوک دار چیز کو ہاتھ لگا نے کی ضد کرے تو یہ مسئلہ بن جا تا ہے ایشو بن جا تا ہے ما ں باپ اگر بچے کو منع کریں تو وہ روتا ہے پورا گھر سر پر اٹھا لیتا ہے اس لئے ماں باپ ”نا ن ایشو“ کی طرف رخ کر تے ہیں بچے سے کہتے ہیں وہ دیکھو کتنا پیا را چو ہا ہے ابھی اپنے بِل سے نکل آئے گا وہ دیکھو سبز اور سرخ رنگ کا چو ہا نکلا ہی چا ہتا ہے بچہ چوہے کو ڈھونڈ نے لگتا ہے بل پر نظریں جما تا ہے اتنے میں ماں باپ سامان سمیٹ لیتے ہیں چاقوچھریاں وغیرہ چھپا لیتے ہیں ہماری تہذیبی روایت میں نا ن ایشو سے اور بہت سے کا م لئے جا تے ہیں جب اصل مسئلہ کا حل نہ ہو تو نا ن ایشو کے ذریعے اصل مسئلے کو دبا یا جا تا ہے چوہا، پرندہ، بھو ت پریت وغیرہ ایسے وقت پر کا م آتے ہیں سر کارکو بھی عوام کیلئے ما ں باپ کا درجہ حاصل ہے عوام جب بے چینی کا اظہار کریں، بے قراری دکھا ئیں سرکار کو تنگ کریں تو سر کار اصل مسا ئل کو چاقو اور چھری کی طرح چھپا نے کیلئے نا ن ایشوز کا سہا را لیتی ہے عوام نا ن ایشو میں کھو جاتی ہے سرکار کی سردردی میں افا قہ ہوتا ہے پھر کوئی مسئلہ پیش ہو نے لگے تو پھر کسی نا ن ایشو سے کا م لیا جا تا ہے اور پھر یہ نان ایشوزاخبارات میں یا ٹیلی وژن پر یا سو شل میڈیا کے ذریعے ہر کسی کے اعصاب پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ ان نان ایشوز سے تیل ارزاں نہیں ہو گا آٹے کے نر خ میں کمی نہیں آئے گی، گھی اور دالیں سستی نہیں ہو نگی سی این جی، ایل این جی اور ایل پی جی کے مسائل حل نہیں ہو نگے۔ ایک پہاڑی مقام پر 85سال کی عمر میں ایک بڑھیا اماں ٹیلی وژن پر تبدیلی، تقرری، اعتماد، عدم اعتماد والی خبریں سن رہی تھی ان کے پو تے نے کہا نا نی اماں آپ یہ خبریں اتنی دلچسپی کے ساتھ کیوں سنتی ہیں؟ نا نی اماں نے کہا بیٹا! میں نے گاؤں میں یہ باتیں بہت دیکھی ہیں اس لئے مجھے ان باتوں میں دلچسپی ہے ہمارے پڑوس میں جب کسی گھر میں نئی بہو آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہو کیسی ہے؟ اگر گھر کو نئی چیزوں سے سجا ئے، نئے نئے پکوان لے آئے، نئے نئے کپڑے سی کر دے دے تو کہتے ہیں اچھے گھر کی بیٹی ہے سلیقہ مند ہے لا ئق اور فائق ہے اگر نئی بہو پرانے بر تنوں کو ادھر ادھر پھینکنا شروع کرے پرانے بر تنوں کو آپس میں ٹکرا کر شور برپا کرے تو کہتے ہیں کہ اچھے گھر کی بیٹی نہیں سلیقہ شعار نہیں نا لا ئق اور نکمی ہے۔ یہ تبادلے، تقرری کے شوشے مجھے ایک آنکھ نہیں بھا تے اعتماد عدم اعتماد مجھے با لکل پسند نہیں مہنگا ئی کی بات کرو غر بت اور بے روز گاری کی بات کرو‘نا نی اماں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی وہ غربت، بے روز گاری اور مہنگا ئی کو اصل مسئلہ سمجھتی ہے باقی ساری باتیں اس کو غیر ضروری مبا حثے لگتے ہیں اسی طرح ہو تا ہے شب و روز تما شا میرے آگے۔