یورپی یونین کی مالی تعاون سے یورپ میں حجاب کی حمایت میں شروع کردہ مہم فرانس کی مخالفت کے بعد روک دی گئی ہے۔ فرانس کی حکومت اور دائیں بازو کی جانب سے یہ مخالفت بلاجواز، غیر منصفانہ اور غیر جمہوری جبکہ یورپی یونین کی طرف سے اس کا انقطاع افسوس ناک ہے۔بجائے اس کے کہ یورپی یونین فرانس کو مسلم عورتوں کیلئے حجاب کی اجازت اورحوصلہ افزائی پر اُبھارتا اور یوں سماجی تنوع کو فروغ دیتا، اس نے فرانس کے دباؤ میں آکر حجاب کی حمایت میں مہم ہی ختم کردی۔یورپ، جو بزعم خود آزادی، انسانی حقوق اور انسانی مساوات کا علمبردار اور محافظ ہے، میں حجاب پر پابندی مغربی انتہاپسندی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ اگر حجاب نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں مگر دوسروں کو اسے پہننے سے روک کر آپ ان کی آزادی کیوں سلب کررہے ہیں۔اپنی پسند کے مذہب کا انتخاب اور اس پر عمل کرنے کی آزادی ایک بنیادی انسانی قدر ہے اور اس پر کسی قانون یا دستور کے تحت پابندی نہیں لگاء جاسکتی جب تک کسی کے عمل سے کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچنے کا احتمال نہ ہو۔ لیکن فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور جمہوریت اور آزادی کے نام پر ہی اقلیتوں کی آزادیوں اور حقوق پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ جس پالیسی اور اقدام سے دوسرے انسانوں کے جائز جذبات و احساسات مجروح ہوں کوئی انصاف پسند اس کی وکالت نہیں کرسکتا۔فرانس اور یورپی یونین کی یہ پالیسی نہ صرف ان کے اپنے سیکولرازم کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ یہ دنیا میں نفرت، انتہاپسندی اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کو فروغ دے گی۔ یاد رہے دو سال قبل فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے توہین آمیز خاکے چھاپنے کو آزادی رائے اور سیکولرازم کا تقاضا کہہ کر مسلسل جاری رکھا او ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی کوئی پروا نہیں کی۔ فرانس میں قائم 47 یورپی ملکوں پر مشتمل کونسل آف یورپ کی اس مہم کا ہدف یورپی معاشرے میں سماجی تنوع کا فروغ اور خواتین کے حق انتخاب اور شخصی آزادی کا تحفظ تھا۔اس مہم کا نعرہ یہ تھا کہ خوبصورتی تنوع میں ہے اور اس کی ایک پوسٹر میں دو نوجوان مسکراتی خواتین موجود تھیں جن میں ایک کے بال کھلے تھے اور ایک حجاب میں تھی اور ساتھ یہ لکھا گیا تھا کہ خوبصورتی تو تنوع میں ہے جیسے آزادی حجاب پہننے میں بھی ہے۔ تو تنوع کی موجودگی پر خوشی منائیں اور حجاب کا احترام کریں۔ یاد رہے کونسل آف یورپ انسانی حقوق بارے یورپی کنونشن پر عمل درآمد کی نگرانی کرتی ہے۔ فرانس میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروہ اور سیاست دان، جو ملک میں تارکین وطن کی آمد اور مسلم خواتین کے عوامی مقامات پر حجاب استعمال کرنے کے مخالف ہیں، یورپی یونین کے اس مہم کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ان میں فرانس کے متوقع صدارتی امیدوار ایرک زیمور، موجودہ صدر ماکروں کے سابقہ صدارتی حریف مارین لے پین اور بریگزٹ معاملات میں یورپی یونین کے سابق اعلی مذاکرات کار میشل بارنیئر وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب اس قسم کی باتیں کرکے فرانس میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا سے آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ کونسل نے یہ تصدیق نہیں کی کہ یہ مہم فرانس کی مخالفت کی وجہ سے ختم کی گئی تاہم صدر میکروں کی حکومت نے بھی یورپی مہم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔فرانس، ہالینڈ، آسٹریا، ڈنمارک، سویڈن، بلغاریہ اور سوئٹزرلینڈ نے سلامتی اور ثقافتی امتزاج و ہم آہنگی کے نام پر حجاب پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔۔ کئی یورپی ممالک مثلاًڈنمارک، بلجیم، ہالینڈ، میں برقعے پر بھی پابندی عائد ہے۔ یورپ میں فرانس پہلا ملک تھا جہاں 2011 میں برقعہ پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ برس اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے دیا تھا۔ فروری 2020 میں جرمنی کی اعلی آئینی عدالت نے مراکشی نژاد مسلم وکیل کی جانب سے عدالت کے اندر ہیڈسکارف پہننے پر پابندی کو غیر آئینی قرار دینے کی اپیل مسترد کردی۔ حجاب پر پابندی کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمانوں پر سرکاری طاقت کے ذریعے ان کی مرضی کے برعکس ایک خاص طرز زندگی مسلط کیا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض یورپی ملکوں میں عدالتوں نے ایسے امتیازی قوانین کو مسترد بھی کیا ہے۔ دسمبر 2020 میں آسٹریا میں آئینی عدالت نے دو مسلم بچیوں کے والدین کی جانب سے دائر کردہ پرائمری سکولوں میں مسلم بچیوں کیلئے ہیڈ سکارف پر پابندی والے قانون کو غیر آئینی اور امتیازی قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا اور اگست میں جرمنی کی وفاقی لیبر عدالت نے زنانہ اساتذہ پر دوران ڈیوٹی ہیڈ سکارف پہننے کی پابندی کو غیر آئینی اور امتیازی قرار دیا تھا۔یورپی یونین حجاب کے پیچھے پڑا ہوا ہے مگر وہاں بااثر عہدوں پر براجمان خواتین کی تعداد مردوں سے بہت کم ہے اور وہ روزگار اور صحت کے شعبوں سمیت ہر شعبہ زندگی میں مردوں سے کافی پیچھے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں صنفی مساوات کی شرح غیر تسلی بخش ہے۔اور صنفی مساوات کے اعشاریے میں یورپی یونین کا اوسط سکور سو میں سے اڑسٹھ رہا اور موجودہ رفتار سے صنفی برابری کی حتمی منزل تک پہنچنے میں اسے تین نسلوں تک انتظار کرنا ہوگا۔ فرانس اور دیگر ملکوں میں مقیم مسلمانوں کو ان جیسے واقعات پر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے وقت پرامن، پرسکون، باوقار اور مدلل انداز اختیار کرنا چاہئے۔ وہ انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کروا سکتے ہیں۔مسلم ممالک مشترکہ طور پر جنرل اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور اسلامو فوبیا کی مستقل روک تھام کیلئے ضروری قانون سازی کروائیں۔