کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی عالمی مقابلوں کے ابتدائی سینتیس میچوں میں سے صرف چار میچز ایسے رہے جو آخری اوور تک کھیلے گئے‘ اِن یک طرفہ مقابلوں میں قواعد و ضوابط میں خرابیاں یعنی کرکٹ کے عالمی منتظم ادارے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی کرکٹ کا بیڑا اٹھانے والے اس ادارے نے سترہ اگست کو بذریعہ ای میل اعلان کیا تھا کہ اگر سری لنکا اور بنگلہ دیش ٹورنامنٹ کے سپر بارہ مرحلے کیلئے کوالیفائی کرجاتے ہیں تو ان کی رینکنگ سے قطع نظر دونوں کو اے ون اور بی ون درجے میں رکھا جائے گا اور اس ترتیب کے مطابق سری لنکا کو گروپ ون جبکہ بنگلہ دیش کو گروپ ٹو میں جانا تھا تاہم بیس اکتوبر کو آئی سی سی نے بغیر کوئی وجہ بتائے اپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ آئی سی سی نے اپنے فیصلے میں اس وقت تبدیلی کی جب کچھ دن قبل یعنی سترہ اکتوبر کو سکاٹ لینڈ کی ٹیم سپر سولہ مرحلے کے میچ میں بنگلہ دیش کو شکست دے چکی تھی۔ آئی سی سی کی جانب سے فیصلے کی اس تبدیلی کی وجہ سے گروپ ون زیادہ مضبوط جبکہ گروپ ٹو غیر متوازن ہوگیا۔ بہرحال یہ ٹورنامنٹ مسلسل آگے بڑھتے ہوئے اپنے اختتامی مراحل کی جانب گامزن ہے۔ عالمی مقابلوں میں ’نمیبیا‘ کی ٹیم نے تقریباً ہر میچ میں اپنی کارکردگی سے ناقدین کو متاثر کیا ہے۔ نمیبیا نے ’آئی سی سی ٹورنامنٹس‘ کا تجربہ رکھنے والی ٹیموں نیدرلینڈ‘ آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کو شکست دینے کے علاوہ پاکستان اور نیوزی لینڈ جیسی خود سے بہت زیادہ مضبوط اور تجربہ کار ٹیموں کے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے نہیں دیا اور اگر ان ٹیموں کے بلے باز آخری اوورز میں جارحانہ بلے بازی کرنے میں ناکام رہتے تو شاید یہ ٹیم کوئی اپ سیٹ بھی کردیتی۔ پاکستان کے خلاف نمیبیا کے باؤلرز نے ابتدائی سولہ اوورز میں اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور قومی ٹیم کو ایک سو ستائیس رنز تک محدود رکھا لیکن پھر آخری چار اوورز میں رضوان اور حفیظ کی پارٹنرشپ نے سب کچھ الٹ پلٹ کردیا اور چوبیس گیندوں پر باسٹھ رنز کا اضافہ کرکے ہدف کو 189رنز تک پہنچا دیا۔ اِن اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ نمیبیا کے پاس اچھے کھیلنے والے کھلاڑی تو موجود ہیں‘ بس تجربے کی کمی کی وجہ سے وہ میچ ختم کرنے جیسی صلاحیت سے محروم ہیں۔ پاکستان کے خلاف تو نمیبیا کے بلے بازوں نے خوب جوہر دکھائے۔ نیوزی لینڈ نے باون رنز سے میچ جیت کر سیمی فائنل کے مضبوط امیدواروں میں اپنا نام تو درج کروالیا ہے لیکن ٹورنامنٹ کی اس منزل تک پہنچنے کیلئے افغانستان ان کی راہ میں ایک چٹان کی طرح حائل ہے۔ نمیبیا اور سکاٹ لینڈ کے خلاف نیوزی لینڈ کی کارکردگی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر آگے جانے کے بجائے زیادہ پوائنٹس حاصل کرکے سیمی فائنل تک جانا چاہتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کا شیڈول کچھ اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو صرف پانچ دن میں تین میچز دوپہر کو کھیلنے پڑیں گے۔ شاید دوپہر کے میچوں کی وجہ سے نیوزی لینڈ نے سکاٹ لینڈ اور نمیبیا کے خلاف ضرورت سے زیادہ محنت کرنے سے خود کو باز رکھا۔ نیوزی لینڈ کیلئے اچھی بات یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں ان کے مستقبل کا فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ انہیں سیمی فائنل میں رسائی کیلئے آج (سات اکتوبر) کو کھیلے جانے والے میچ میں بغیر کسی رن ریٹ دباؤ کے افغانستان کو شکست دینی ہے۔ اس میچ میں افغانستان کی ٹیم کو اگر مجیب کی خدمات حاصل ہوگئیں تو نیوزی لینڈ کیلئے جیت کا حصول مشکل ہوسکتا ہے۔ بھارتی سپنر روی چندر ایشون نے سکاٹ لینڈ کے خلاف میچ سے قبل ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران افغان ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ازراہ مذاق یہ بھی کہا کہ کاش بھارت مجیب کو فٹ کرنے کیلئے ڈاکٹر فراہم کرسکتا۔ پریس کانفرنس میں موجود صحافی بھلے ہی اس بات کو ہلکا پھلکا مذاق تصور کرتے ہوں لیکن کرکٹ کا ایک عام شائق جانتا ہے کہ یہ مذاق نہیں بلکہ ایشون کے دل کی آواز ہے۔ٹورنامنٹ کا سینتیسواں مقابلہ سکاٹ لینڈ اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ میں حسبِ توقع بھارت نے یک طرفہ مقابلے میں سکاٹ لینڈ کو باآسانی آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کو زندہ رکھا ہے۔ اپنے دو ابتدائی میچز ہار کر بھارتی ٹیم نے بقیہ دونوں میچز شاندار انداز میں جیتے ہیں یعنی رن ریٹ کو بڑھانے کیلئے جس بڑے مارجن سے جیت کی ضرورت تھی‘ بھارتی ٹیم نے وہ حاصل کرلیا۔ مثال کے طور پر افغانستان کے خلاف بھارت کو کم از کم ساٹھ رنز سے جیت درکار تھی تو اس میچ میں چھیاسٹھ رنز سے کامیابی ملی۔ اسی طرح سکاٹ لینڈ کے خلاف ہدف کا تعاقب سات اعشاریہ ایک اوورز میں کرنا تھا مگر یہ کام چھ اعشاریہ تین اوورز میں ہی ہوگیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بھارتی ٹیم نے اپنی کھوئی ہوئی فارم دوبارہ حاصل کرلی ہے اور یہ ٹیم اگر کسی طرح سیمی فائنل میں پہنچ جاتی ہے تو پھر اس کو فائنل کھیلنے اور جیتنے سے روکنا بہت مشکل ہوگا۔