میں ایک شام چرا لوں؟

دھواں دھار بیٹنگ کی بات نہیں کر رہا۔جو آصف نے ایک اوور میں چار چھکے لگا دیئے۔اس میدان میں تو ہمارے عوام چوکے چھکے لگا رہے ہیں۔ آصف نے پہاڑوں جیسی بلندی والے چھکوں کو گراؤنڈ کے پار اتار دیاتھا۔یہاں ہمارے پیارے خود اپنے خلاف چھکے لگا رہے ہیں۔شہر سے بلند اور سوئے آسمان اونچے۔جیسے کوئی فٹ بال کا کھلاڑی لات مار کر اپنے گول میں  بال پھینک دے۔جیسے کوئی ہاکی پلیئر اپنے گول پوسٹ میں گیند گرا دے ۔ یہاں تو ہمارے جان وجگر خود اپنے جال میں جانتے بوجھتے گول پہ گول کر رہے ہیں۔انھیں یہ سینس نہیں کہ کیا رہے ہیں۔ انھیں بے خبری بھی تو نہیں کہ قابلِ تلافی ہواور پھر اس پر معافی ہو۔ یہ سب کچھ جان کر ہے مان کر ہے۔مگر وہ ایسا کرتے رہیں گے۔یہ نہیں رکنے والے۔سرِ شام نکل جائیں۔ شہر کے بڑے چوک میں یا کہیں اوپن ایئر میں ہو۔سرِ آسمان ایک دھواں دھار فضا کا سامنا ہوگا۔ان دنوں کی خنکی اور ٹھنڈک شام ڈھلے ماحول کو چادر کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اس یخ ہوا میں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بادلوں نے ماحول اور ہمارے ارد گرد کی فضا کو سہانا بنا دیا ہے۔مگر یہ سرمئی شام اور خوبصورت سماں آنکھوں کا دھوکا ثابت ہوگا۔ کیونکہ چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں نہ جلیں یہ اونچے سٹروک کھیل کر جام کیا ہوا ہمارا اپنا دھواں ہے۔جو سارا دن گاڑیوں سے نکلتا ہے۔جو رکشوں سے برآمد ہوتا ہے۔چنگ چی رکشوں کا تیار شدہ ہو تاہے۔ماحول ہمیں سونا دے رہاہے او رہم ماحول کو کیا دے رہے ہیں۔پھرہم ایک دوسرے کو کیا پیش کر رہے ہیں۔ دھواں گردو غبار مٹی یہ سب کچھ شام کے عالم میں زیادہ ہو کر شہر کے اوپر چھت سی تان لیتے ہیں۔پھر ہم اس تمبو میں اس کھینچے گئے خیمے اور شامیانے میں گھر ہو یا کوئی تقریب اپنی اپنی  شام منانے لگتے ہیں۔خود ہی سامع خود مقرر اور خود صدرِ محفل بن جاتے ہیں۔آلودگی اور سموگ کے خلاف تقریریں کرتے ہیں۔اندھیرے کو کھری کھری سنا ڈالتے ہیں۔ہر تقریر کرنے والا اپنے اپنے نمبر پر اپنے زریں خیالات سامعین کے کانوں کی کٹوریوں میں انڈیل کر اپنے کالر جھٹک کر سٹیج سے نیچے اتر آتا ہے۔مگر کوئی اتنا نہیں کرتا کہ اس اندھیرے کے عالم میں سٹیج پر جاکر اس منڈپ میں ایک شمع روشن کردے کہ تاریکی کو شکست ہو جائے۔موقع غنیمت ہے اور مصرع ذہن کی زینت ہے۔”کتنا مفلوج ہے اس دور کاانساں ناصر“۔(ناصر علی سید)۔ پھر اس عالم میں دھواں دیتی آنکھوں کو سلگاتی دل ودماغ کو جلاتی اندھیرے کو شکست نہ دے سکنے والی شام ہے جب اندھیرے نے پھیلنا ہوتا ہے۔پس منظرمیں نورجہاں کی گائی غزل کا شعر یاد آنے لگتا ہے۔”شام پھیلی ہے ترے سرمئی آنچل کی طرح۔ چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح“سرمئی شام تو سرِ آسماں بلند ہوجاتی ہے۔پھر چاند جانے کس کو تلاش کرنے کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔مگر نہیں جب سورج اپنی روشنی بکھیرنے کے عمل کو کل پر اٹھا رکھتا ہے تو تاوقتیکہ دوبارہ نمودار ہو۔چاند او ر ستارے روشنی کے اس عمل کو جاری رکھنے کی غرض سے اپنی سی کوشش کر تے ہیں۔چاند کسی صاحبِ فہم و فراست کو ڈھونڈتا ہے۔مگر کہاں ایسے لوگ۔ملنے کے جو نہیں نایاب ہیں۔ہم نے اپنے خوبصورت ماحول کو شہر کو اپنے لئے خود قید خانہ بنا ڈالا ہے۔جہا ں گیسیں دھواں مٹی دھول غبار سب کچھ نظر بند کر دیا گیا ہے۔اپنے ہی نکالے ہوئے سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اگرچہ ہم نے لب و دنداں سے نکال دیئے مگر یہی دھوئیں ہمارے آنکھوں میں اورطرح سے داخل ہو کر ہماری آنکھوں میں سرخی بھر دیں گے ہمیں آٹھ آٹھ آنسو رلائیں گے۔اگر یہ حال رہا تو شاید وہ وقت بہت قریب ہو جب دن کو بھی سورج کی تپش کے دوران میں دھوئیں کے بادل اس شہر کو اپنی موٹی چادر میں کس کر باندھ لیں۔ہم یہ جانیں کہ موسم سہانا ہے اور بادل آئے ہیں۔مگر وہ ہمارے کرتوتوں کا پردہ چاک کر رہے ہوں۔ہم اپنی آکسیجن خو د بندکر رہے ہوں۔ ہمارا اپنا جینا ہمارے اپنے ہاتھوں دوبھر ہو جائے۔پھر کون ہوگا جو کہے گا ”تمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے۔میں ایک شا م چرا لوں اگر برا نہ لگے“۔شہر کی آبادی زیاد ہ ہے او رزیادہ ہو رہی ہے‘جانے وہ کون ہے جس کو چاند اس سرمئی آنچل جیسی شام میں ڈھونڈنے نکلا ہے۔شاید وہ جو اس ماحول کو آلودگی سے نجات دلا دے۔ شاید چاند ہم میں سے ایک ایک کو ڈھونڈ رہاہے۔