کس میں ہے جذبہئ ایثار‘ چلو دیکھیں گے 

مہنگائی میں اضافے کا فوری اثر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے محسوس کیا جاتا ہے جس میں چینی بنیادی جنس ہے۔ گزشتہ چند روز سے چینی کی قیمتوں میں جس قدر اضافہ ہوا وہ دو لحاظ سے غیرمعمولی ہے۔ تاہم یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبے کی سطح پر اس معاملے سے نمٹنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی طرف سے موثر اقدامات اٹھانے کی جو ہدایات جاری کی گئی ہے ان کے اثرات جلد نظر آئیں گے‘اقوام مشکل کے وقت متحد ہو کر حالات کا مقابلہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹ کر کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں مشکل سے ذاتی مفادات حاصل کرنے والوں کا شمار ممکن نہیں! ”کون ہے قوم کا معمار‘ چلو دیکھیں گے …… کس میں ہے جذبہئ ایثار‘ چلو دیکھیں گے (عزیز خاں عزیزؔ)۔“بنیادی بات یہ ہے کہ چینی کی تھوک (ہول سیل) یا پرچون (ریٹیل) قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کیلئے کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں‘ کہ جس پر عمل کرتے ہوئے مہنگائی کے مصنوعی ظہور کو روکا جا سکے۔ ریٹیل دکاندار سے پوچھیں کہ چینی کیوں مہنگی ہے تو وہ تھوک دکاندار کی رسید دکھا دیتا ہے۔ تھوک کاروبار کرنے والے پوچھیں تو وہ اجناس کی مرکزی منڈی کے تاجر سے خریداری کی رسید اور چینی کی نقل و حمل پر اُٹھنے والے اخراجات کی تفصیلات پیش کر دیتا ہے اور جب تاجر سے پوچھیں تو وہ شوگر ملز کی طرف انگلی اُٹھا دیتا ہے جہاں سے چینی براہ راست مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتی بلکہ چینی بننے اور اِس کے مارکیٹ پہنچنے کے عمل میں یہ کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ پانچ ہاتھوں میں فروخت ہو چکی ہوتی یعنی اِس پر مختلف لوگ اپنا اپنا منافع کما چکے ہوتے ہیں۔ اجناس کی پیداوار سے اِن کی فروخت تک کے عمل سے جڑی منافع خوری کے مراحل کا سدباب کئے بغیر مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ اَجناس کی جن منڈیوں میں قیاس آرائیوں اور افواہوں کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ جاتی ہوں‘ وہاں قیمتوں کو معمول پر لانا آسان ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہے! عام آدمی (ہم عوام) کی بات کریں تو گزشتہ چند برس سے یہ مہنگائی کو برداشت کرتے ہوئے ناکردہ گناہوں کی قیمت اَدا کر رہے ہیں اور جب بھی وزیر اعظم نے مہنگائی کا نوٹس لیا ہے تو اس کے بعد سے قیمتیں کم ہونے کی بجائے اِن میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔  منافع خوری کی لت اور آپسی اتحاد کی وجہ سے ہم عوام کو مہنگے داموں چینی خریدنی پڑ رہی ہے! ایک مرحلے پر جب حکومت نے شوگرملوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا  اور کچھ اقداما ت بھی کئے تاہم ان کے نتائج عوام کے حق میں سامنے نہ آسکے۔عام آدمی کو حکومتی تحقیقات اور اقدامات سے غرض نہیں اُنہیں تو سستی چینی چاہئے۔ تکنیکی ضرورت یہ ہے کہ چینی کی درآمد اور برآمد کے حوالے سے حکومتی پالیسی کے خدوخال عوام کے سامنے پیش ہونے چاہیئں۔ جہاں تک چینی کی قیمت میں اضافے کا تعلق ہے تو درآمد ہونے والی چینی سے قیمتیں کم کیوں نہیں ہوئیں۔ اس سال کسانوں کے مطالبے پر گنے کی فی من امدادی قیمت دوسوپینسٹھ روپے مقرر کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود چینی سستی نہیں ہوئی جو عام آدمی کی قوت ِخرید میں آ جائے۔ چینی کی صرف قیمتیں ہی نہیں بڑھیں بلکہ اِس کی دستیابی بھی وافر نہیں رہی اور چینی کا جو ممکنہ بحران دستک دے رہا ہے‘ اُس سے نمٹنے کیلئے تیاریاں اُور کاروائیاں کرنے میں مزید تاخیر اور غلطیوں کی گنجائش نہیں رہی۔ واضح رہے کہ مہنگائی کی جو لہر پاکستان میں محسوس کی جارہی ہے اس کے اثرات بیرونی عوامل کے تحت بھی ظاہر ہو رہے ہیں کیونکہ مہنگائی نے نہ صرف ترقیافتہ ممالک میں ریکارڈ توڑے ہیں بلکہ وہاں پر اس کی شدت کہیں زیادہ نظر آرہی ہے اس ضمن میں حکومت جو کوششیں کر رہی ہیں اور عوام پر اس کے اثرات کم سے کم مرتب ہونے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے وہ اپنی جگہ اہم ہیں اور جلد ہی اس لہر پر قابو پایا جائے گا کیونکہ درآمدی چینی کی بڑی مقدار ملک کے مختلف حصوں کو سپلائی کی جارہی ہے خاص کر صوبہ خیبرپختونخوا اس حوالے سے قابل ذکر ہے جہاں چینی کی وافر مقدار کی دستیابی کوئی یقینی بنانے کے لئے تیزی سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔