سولہ جولائی دوہزار اکیس کے روز ”انٹرنیشنل کرکٹ کونسل‘‘نے ”ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ‘‘مقابلوں کیلئے 2 گروپوں میں 10 ٹیموں کے ناموں کا اعلان کیا تھا سپر 12 کے پہلے گروپ میں برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ جنوبی افریقہ‘ سری لنکا‘ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش جبکہ دوسرے گروپ میں پاکستان‘ نیوزی لینڈ‘ بھارت‘ افغانستان‘ نمیبیا اور سکاٹ لینڈ پہلے راؤنڈ کے پانچ پانچ مقابلوں کے بعد بالترتیب پوزیشن ہولڈرز ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے 5 مقابلوں میں کامیابی حاصل کی اور یہ نہ صرف ”گروپ ٹو“ بلکہ گروپ کے مقابلے بھی بہترین کارکردگی ہے جہاں سرفہرست برطانیہ کی ٹیم نے پانچ میں سے چار مقابلے جیتے ہیں اور اُس کے مجموعی طور پر 8 پوائنٹس ہیں جبکہ پاکستان نے 5 میچوں میں 10 پوائنٹس حاصل کئے ہیں اور 12 ٹیموں میں پاکستان واحد ایسی ٹیم ہے جس نے دس پوائنٹس حاصل کئے ہیں لیکن پاکستان کا نیٹ رن ریٹ (+1.583) برطانیہ کے نیٹ رن ریٹ (+2.464) سے کم ہے لیکن سیمی فائنل مقابلے میں اِس سے فرق نہیں پڑے گا۔قریب دو ہفتے دنیائے کرکٹ کو ہیجان میں مبتلا رکھنے کے بعد اب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا ”سپر بارہ“ مرحلہ اپنے اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ آئندہ مقابلہ پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا گیارہ نومبر کے روز کھیلا جائے گا‘ جس کے لئے بالخصوص پاکستان کے شائقین کرکٹ پرجوش و پراُمید ہیں۔ لب ِلباب یہ ہے کہ کرکٹ بہادروں کا کھیل ہے‘ جو دلیری کا مظاہرہ کرے گا وہی میدان مارے گا۔ جاری ٹورنامنٹ میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ لگتا تھا آسٹریلیا سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔ ’گروپ آف ڈیتھ‘ میں جہاں آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ جنوبی افریقہ‘ سری لنکا‘ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش میں سے صرف دو ٹیمیں اگلے مرحلے تک جاسکتی تھیں‘ وہاں کوئی بھی نتیجہ آنا ممکن تھا لیکن آسٹریلیا نے نہ صرف بھرپور حوصلے کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے دماغ کو بھی ہر دم حاضر رکھا۔ ایک چھوٹی سی مثال بنگلہ دیش کے خلاف میچ تھا جس میں آسٹریلیا نے پہلے حریف کو صرف 73رنز پر ڈھیر کیا اور اپنے نیٹ رن ریٹ کو بڑھانے کے لئے طوفانی رفتار سے ہدف کا تعاقب کیا۔ ساتویں اوور کی دوسری گیند پر محض ہدف ہی تک نہیں پہنچا بلکہ اسے اس طرح حاصل کیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رنز بنا کر اپنے رن ریٹ کو مہمیز دے‘ اس کے لئے آخری گیند پر چھکا لگا کر 74کے بجائے 78رنز بنائے اور غالباً یہی مقابلہ تھا جس نے فیصلہ کردیا تھا کہ سیمی فائنل آسٹریلیا کھیلے گا۔ اپنے آخری مقابلے میں بھی آسٹریلیا نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور 158رنز کا ہدف سترہویں اُوور میں حاصل کرکے جنوبی افریقہ کیلئے سخت مشکلات کھڑی کیں‘۔ جنوبی افریقہ کو اپنے آخری مقابلے میں نہ صرف برطانیہ کو ہرانا تھا بلکہ اس طرح ہرانا تھا کہ اس کا نیٹ رن ریٹ آسٹریلیا سے آگے نکل جائے اور دیانت داری کی بات کریں تو اس کے لئے جنوبی افریقہ نے سر توڑ کوشش بھی کی۔ بلے بازی کی دعوت ملنے کے بعد ابتدائی نقصان کے باوجود انہوں نے جاندار کارکردگی دکھائی‘ خاص طور پر ریسی وان ڈیر ڈوسن کی اننگ ایک شاہکار تھی جنہوں ساٹھ گیندوں پر چھ چھکوں اور پانچ چوکوں کی مدد سے ناٹ آؤٹ 94رنز‘ وہ بھی ان فارم برطانیہ کے خلاف‘ اس سے بڑا کمال اور کیا ہوگا؟ دوسرے اینڈ پر آئیڈن مارکرم نے بھی پچیس گیندوں پر ناقابلِ شکست باون رنز بنائے۔ ان دونوں کی بدولت جنوبی افریقہ صرف 2وکٹوں پر 189رنز بنانے میں کامیاب رہا۔ بلاشبہ یہ بڑا سکور تھا لیکن جنوبی افریقہ کو جس مشکل کا سامناتھا‘ وہ تھا اس کا نیٹ رن ریٹ۔ اپنے رن ریٹ کو آسٹریلیا سے بھی بہتر بنانے کے لئے ضروری تھا کہ جنوبی افریقہ برطانیہ کو محض 131رنز تک محدود کرے۔ یہ ناممکن نہیں تو برطانیہ کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بہت مشکل ضرور تھا۔ سولہویں اُوور میں لیام لوِنگسٹن کے مسلسل تین چھکوں نے اس سنگ ِمیل کو عبور کرلیا۔ یوں جنوبی افریقہ سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گیا۔ برطانیہ پانچواں میچ بھی جیت کر ناقابلِ شکست حیثیت کے ساتھ سیمی فائنل میں جانا چاہتا تھا لیکن جنوبی افریقہ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کے دوران دنیائے کرکٹ کا ایک چیمپیئن بھی رخصت ہوا ہے۔ ڈیوین براوو نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ دوسری جانب یہ’’یونی ورس باس‘‘کرس گیل کا بھی آخری مقابلہ سمجھا جا رہا تھا لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ وہ جمیکا میں الوداعی میچ کھیلنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے الفاظ میں ”میں تو اگلا ورلڈ کپ بھی کھیلنا چاہتا ہوں۔