سال بھر کسی نہ کسی شئے کا سیزن رہتا ہے۔اپنے وقت پہ شروع اور ختم ہوتا ہے۔ابھی سردیو ں کا آغاز ہے۔شادیوں کے ڈھول بجنے لگے ہیں۔۔ہتھیلیوں پر مہندیاں رچائی جا رہی ہیں۔کپڑے لتے سجائے جاتے ہیں۔ ملبوسات کی دکانوں پر بھیڑ بڑھنے لگی۔بیوٹی پارلروں کے باہر چوکوں چوباروں پر دلہن ہم سجائیں گے کہ بورڈ آویزاں ہونے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی مقابلے کے بیوٹی سیلون پہ دلہا ہم سجائیں گے والے سائن بورڈ بھی اپنی رعنائی سمیت جلوہ گر ہیں۔دور جائیں تو ڈھولکی کی آواز ماٹھی ہوئی جاتی ہے۔قریب آئیں تو ڈھولک کے گرد سکھی سہیلیوں کے جھرمٹ میں تالیاں بھی ساتھ بج رہی ہیں۔خوشیوں کے گیت گائے جا رہے ہیں۔جن میں کورونا وائرس سے نجات او رپابندیو ں کے اٹھ جانے کی سر خوشی بھی شامل ہے۔گلی میں مہندی کا غول آیا تو ساتھ کہیں ڈھول والے کو بھی بلوا لیا۔ڈھول کی تھاپ پر لڑکے بالے رقص میں جھومتے ہیں۔گودی میں اٹھایا بچہ بھی اس آواز پر دھیرے دھیرے ہل جل رہا ہے۔گذری عمر کے لوگ احتیاط کے مارے دکانوں کے تھڑوں پر اور گھروں کے صحن میں ایک طرف اونچے ہو کر کھڑے ہیں۔ یوں کہ دھکم پیل میں کسی نوجوان کا کاندھا نہ ٹکرا جائے۔شادی ہالوں کی رونق لوٹ آئی۔کورونا کارن جو پابندیاں تھیں ان کی شدت ختم ہوئی۔ پھر شہریوں نے کھل کھیلنے کا سوچ لیا۔ کوئی تو پینٹ کوٹ پہنے ہے اور کوئی سادہ مگر کڑاکے دار لباس زیب تن کئے ہے۔کوئی کسی سے پیچھے نہیں۔ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور نکل جانے کی تمنا ہے۔سیٹیاں بج رہی ہیں آوازے کسے جا تے ہیں۔کبھی کسی دوست کو نشانہ بنایا گیا ہے اور کبھی کس دوست کے شکارہوجانے کی باری ہے۔بیچ میں مہندی کا تھال رکھ کر اس کے گرد یا پھردلہا کے گرد وپیش لڈی ڈالی جا رہی ہے۔دلہا بھی فخر سے سر کوبلند کئے سارا ماجرا دیکھ رہا ہے۔ساتھ ساتھ بارات کے جلوس میں خواتین بھی اپنے بھائی بیٹے او رپوتے نواسے کو سہرے کی لڑیاں پہنے دیکھ رہی ہیں۔ گھنٹہ گھر کے باہر مینا بازار کے کونے پر بارات کا جلوس رک سا گیا ہے۔کیونکہ ایک من چلے نے بینڈ والوں کو یہا ں بینڈ بجانے کو کہہ دیا ہے۔ اب تو ایک نظم و ضبط کیساتھ بینڈ باجے والے دوطرفہ قطار میں کھڑے ہیں۔ان کا سر پنج ہاتھ میں نفیس شان کاڈنڈا لئے اپنے داہنے کاندھے کے پاس بہت تیزی کے ساتھ گول گھما رہاہے۔کبھی تو کھڑے او رکبھی ایک گھٹنے کے بل بیٹھ کر ڈنڈا چلانے کا کرتب دکھلاتا ہے۔اتنے میں آواز آتی ہے۔چلو چلو چلو اور اس کے ساتھ بارات آہستہ مگر آگے کو رواں دواں ہو جاتی ہے۔جن کے لب و رخسار میں خون کی گرمی ہے وہ تو آگے آگے ہیں او رچاہتے ہیں کہ یہ مناظر کبھی ختم نہ ہو ں اور یونہی بارات رواں دواں رہے۔مگر جو بال بچے دار ہیں او ردود وبچوں کو اٹھا رکھا ہے۔وہ بارات کے گھڑی گھڑی رک جانے تماشا کرنے سے جھنجھلا اٹھے ہیں۔ان کو نیند نے ستایا ہے۔ آج کل کسی کو فرصت نہیں۔شہر واسیوں کے تمام دن مصروف ہیں۔جمعہ ہفتہ اتوار تو خاص طور پر یہ لوگ فارغ نہیں۔کبھی کسی کی بارات اور کبھی کسی ولیمہ کو اٹینڈ کرنے جانا ہے اور لازمی جانا ہے پھر کورونا کا جو بندھن ٹوٹا ہے تو اب وہ جوش و خروش ہے کہ بندے اپنے جامے میں پھولے نہیں سماتے۔شادی کارڈ پر کسی نے چھ بجے کا ٹائم لکھا ہے مگر وہ خود اپنے گھر سے بارات لے کر آٹھ بجے نکلتے ہیں۔کیونکہ اس سردی کے موسم میں بھی خاص وضع کے پشوریوں کی یہ شان نہیں کہ ان میں ایک عام آدمی بھی رات 9بجے سے پہلے شادی میں آئے۔