علا مہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر مقبول الٰہی کی رحلت سے جزوقتی ملا زمت اور جزوقتی تعلیم کو ملا نے والے لا کھوں طلباء اور طالبات کو دلی صدمہ ہوا ہے۔ مقبول صاحب دفتر میں بیٹھ کر حکم چلا نے والے آفیسر نہیں تھے وہ یونیورسٹی کے داخلہ فارم‘رزلٹ کارڈ‘ بینک چا لان اور دیگر دستا ویزات اپنے دستی بیگ میں بھرکر گاؤں گاؤں جا تے تھے اور آٹھویں، دسویں اور بار ہویں جما عت کے بعد معمو لی ملازمت حا صل کر کے سبق چھوڑ نے والوں کو تعلیم جا ری رکھنے اور ترقی کر نے کا راستہ دکھا تے تھے فارم بھر تے تھے بینک چا لا ن پر کر کے داخلہ فیس جمع کر تے تھے رزلٹ کارڈ گھروں پر جا کر دے آتے تھے ان کی اس محنت کی وجہ سے چو کیدار بھر تی ہو نے والوں نے اپنی تعلیمی استعداد بڑھا کر خود کو اعلیٰ درجہ کے پو سٹوں کا اہل ثا بت کیا، پرائمری سکول میں ٹیچر بھر تی ہونے والے ہا ئی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر بن گئے۔ خصو صاً غریب خا ندانوں کی بچیاں جو آٹھویں جماعت کے بعد تعلیم حا صل کرنے سے محروم رہ گئی تھیں وہ ایم اے، ایم ایڈ تک پڑھ کر سکولوں اور کا لجوں میں سکیل 17اور 18کی آسا میوں پر فائز ہو گئیں اُن سب کیلئے مقبول الٰہی صاحب کا نا م کسی بڑے محسن سے کم نہ تھا مقبول الٰہی صاحب 65سال کی عمر میں 28اکتو بر 2021کو اسلام آباد کے بڑے ہسپتال میں وفات پا گئے ان کی پیدائش کا سال 1956ء تھا ان کے والد رحمت الٰہی92سال کی عمر میں ہو ش و حواس کے ساتھ زندہ ہیں۔ چترال کی ریا ست میں خوب صورت گاؤں بروز کے رہنے والے تھے اور رئیسہ قبیلے کے چشم و چراغ تھے اس قبیلے نے 1320ء سے 1595ء تک چترال کی ریا ست پر حکومت کی ہے ان کے دادا نعمت خا ن اپنے زما نے کے مشہور شاعر، نغمہ نگار اور ثقا فتی شخصیت تھے دادا سے شاعری کا فن ان کے والد رحمت الٰہی کو ملا، رحمت الٰہی کے بیٹوں میں شاعری اور نغمہ نگاری کا فن مہربان الٰہی حنفی کو ودیعت ہوا۔چنا نچہ یہ گھر انہ ادب و ثقا فت کے لحاظ سے تیسری پُشت میں بھی ما لا ما ل ہے۔ مقبول الٰہی نے پشاور یو نیورسٹی سے گریجو یشن کرنے کے بعد در س و تدریس کا پیشہ مکتب سکول سے شروع کیا ترقی کر کے سینئر انگلش ٹیچر مقر ہوئے تو علا مہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے ریجنل آفس چترال کیلئے آپ کی خدمات حا صل کی گئیں یہ 1987ء کا سال تھا اس زما نے میں چترال کے دور دراز دیہات میں مو ٹر کے راستے نہیں تھے اکثر جگہوں پر پیدل جا نا پڑتا تھا اور جہاں موٹر کی سڑ کیں تھیں ان سڑکوں پر بھی عام ٹریفک نہیں چلتی تھی۔مقبول صاحب نے اُس حال میں چترال کے دور دراز دیہات کا سفر کر کے لو گوں کو اوپن یو نیور سٹی کے پرو گرام سے آگاہ کیا۔میٹرک سے لیکر ایم اے تک داخلے کیلئے نو جوانوں کو تر غیب دی۔ لائبریری سائنس ٹیکنیکل ایجو کیشن اور دیگر کورسوں کو متعارف کروایا۔چند ہی سالوں میں چترال کے ریجنل آفس میں داخلہ لینے والوں کی تعداد 5ہزار تک پہنچ گئی 1987ء میں اوپن یو نیورسٹی کا پروگرام متعارف کراتے وقت بڑا مسئلہ ٹیو ٹر کا انتخاب اور ان کی منا سب تر بیت کا انتظام تھا۔مقبول صاحب نے رات دن محنت کر کے ان مشکلات پر قابو پا یا۔ چونکہ علا مہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا ہوا ہے اس لئے کتا بوں کی تر سیل‘ تر بیتی مواد کی فراہمی اور نتا ئج کے ساتھ سرٹیفیکیٹ اور رزلٹ کارڈ کی تر سیل میں وقت لگتا تھا ایسے مشکلا ت میں مقبول صاحب لو گوں کو تسلی دیتے اور ہر ممکن مدد کیا کر تے تھے۔ ان کی جدائی کا غم سب کو ہے اللہ پا ک ان کی روح کو ابدی راحت نصیب کرے۔