حزب مخالف کی جماعتیں نئے عزم سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کر چکی ہیں‘ جس میں دیکھنا یہ ہوگا کہ مخصوص سیاسی کارکنوں کے علاؤہ عام آدمی کس قدر شریک ہوتا ہے کیونکہ حزب اختلاف کی احتجاجی حکمت ِعملی سے پاکستان کا عام آدمی لاتعلق ہے جس کی وجوہات میں اِن کے طرزحکمرانی کی ان گنت خامیاں رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں پیپلزپارٹی کی حکمت عملی قدرے مختلف ہے‘ جس نے نواز لیگ کو مشورہ دیا ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کی پنجاب میں صوبائی حکومت کو ختم کریں اور اگر نواز لیگ و پیپلزپارٹی اِس ایک کام کیلئے متحد ہو جاتی ہیں تو یہ قطعاً مشکل کام نہیں ہوگا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت کو عددی اکثریت سے ہٹانا شاہراؤں پر احتجاج سے زیادہ آسان اور کم خرچ ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ جمعیت علمائے اِسلام (فضل الرحمن) نے قبائلی ضلع میں احتجاجی جلسہ کیا ہے اور جس قدر بڑے اجتماع کی صورت (عوامی طاقت) کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ اُس نے ’پی ڈی ایم‘ میں نئی جان ڈال دی ہے۔ پی ڈی ایم کا بنیادی ہتھیار لازمی طور پر افراط زر (مہنگائی) کی شرح ہے جس سے حزب اختلاف کا ہر رہنما اپنی بات شروع اور اِسی مہنگائی کے نکتے پر اپنی بات ختم کرتا ہے۔ وفاقی ادارہئ شماریات (بیورو آف سٹیٹسٹکس) کے جاری کردہ اعدادوشمار کی بنیاد پر پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کی جاری لہر جلد ختم ہونے والی نہیں اور اِس کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوتا رہے گا‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کا مسئلہ ہے البتہ پاکستان میں قوت ِخرید کم ہونے کی وجہ سے مہنگائی کے منفی اثرات زیادہ شدت سے محسوس ہو رہے ہیں۔ معاشی مضبوطی کیلئے جہاں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ضروری ہے‘ وہیں امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر کو مستحکم کرنا بھی ضروری ہے‘ جس کے باعث خام مال اور پیداوار کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ حکومت کو پرتعیش اشیا کی درآمدات کم کرنا ہوں گی جیسا کہ لگژری گاڑیاں اور دیگر پُرتعیش سازوسامان کی درآمدات کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے تاکہ مقامی صنعتوں (پیداوار) کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ پاکستان کو درپیش معاشی مسائل امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں تیزی سے کم ہونے کی وجہ سے ظہورپذیر ہو رہے ہیں۔ پھر یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے ’پی ڈی ایم‘ فائدہ اُٹھانے کی اُمید کر رہی ہے۔ پنجاب سے شروع ہونے والی اندرون خانہ تبدیلی کے متبادل پر حزب اختلاف کے اتحاد کو احتیاط سے غور کرنا ہو گا‘ جس میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کو الگ کرنے جیسے امکانات بھی زیرغور ہیں‘ جن سے تحریک انصاف کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور اِن مشکلات کو بعدازاں سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور حزب اختلاف میں خلیج ہر دن وسیع ہو رہی ہے جس میں بہتری کی گنجائش نظر نہیں تو اگر حزب اقتدار و حزب اختلاف کے تعلقات تین سال میں بہتر نہیں ہوئے تو باقی ماندہ عرصے میں اِس بات کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم ایک کامیاب احتجاج کیلئے اس درکار تعداد میں عوام کو اکٹھا کر سکتی ہے‘ حزب اختلاف کی جماعتوں میں صرف ’جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن‘ کے پاس ”سٹریٹ پاور“ ہے جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی مختصر تعداد میں لوگوں کو سڑک پر لانے میں کامیاب ضرور ہوئی ہے لیکن یہ تحریک ِانصاف کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ فی الوقت حزب اقتدار کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔