ریاست کا ذمہ دارانہ کردار اور بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ دشمنوں کی بجائے دوستوں میں اضافہ کرے اور یقینا ایسا طرزعمل اختیار کرنا بھی ریاست ہی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی تصور ہوگی جس میں سرپرست ہونے کا حق ادا کیا جائے۔ قابل ذکر ہے کہ حکومت ِپاکستان نے ریاست مخالف عناصر سے بات چیت کے ذریعے جس انداز میں تصفیہ کرنے کی کوشش کی ہے‘ اُس کے مستقبل قریب بالخصوص جمہوری طرز حکمرانی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور اِس بات چیت کا ساتواں دور جاری ہے۔۔ یہ پیشرفت انتہائی اہم اور خوش آئند ہے کہ ریاست عسکریت پر آمادہ طبقات کو ملک کی تعمیروترقی اور خوشحالی کے عمل میں شریک کرنا چاہتی ہے اور اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عسکریت پسند اپنا طرزعمل تبدیل کرنے پر رضامند ہیں تاہم حزب اختلاف کی جماعتیں اِس موقع پر غیرضروری شکوک و شبہات پیدا کرکے حکومتی کوششوں کو ناکام بنانے پر تلی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت اِس سے قبل تحریک لبیک پاکستان کو بھی بات چیت کے ذریعے اپنے سخت گیر مؤقف میں نرمی لانے پر قائل کر چکی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی حکومت نے بیک وقت دو بڑے خطرات کو اِس طرح ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔حزب ِاختلاف کا مطالبہ ہے کہ پارلیمان کو عسکریت پسند‘ انتہا پسند اور شدت پسند دھڑوں سے مذاکرات اور اِن مذاکرات کی شرائط سے آگاہ کیا جائے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا قبل از وقت کرنا ’قومی مفاد‘ میں نہیں اور ماضی کی کئی ایک ایسی مذاکراتی کوششوں سے بھی پارلیمان تو کیا قوم کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی گئی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سیاسی اختلافات کی بجائے قومی مفاد میں فیصلوں کی اہمیت کو سمجھا اور مدنظر رکھا جائے۔ حزب اختلاف بخوبی جانتی ہے کہ اُن کا ایک بیان عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کے علاوہ مذاکراتی عمل کے مستقبل پر سوال اُٹھا سکتا ہے اور وہ کوششیں جس کے چھ دور مکمل ہو چکے ہیں اگر اِس مرحلے پر اُسے دھچکا پہنچتا ہے تو یہ قومی نقصان ہوگا۔ اصولاً جب تک مذاکرات کامیاب نہیں ہو جاتے اور جب تک حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان معاہدہ نہیں ہو جاتا اُس وقت تک اِس سے متعلق تفصیلات زیربحث آنی ہی نہیں چاہئے تھیں کیونکہ یہ بات کوئی بھی نہیں جانتا کہ بات چیت کے مزید کتنے راؤنڈز ہوں گے اور دونوں فریقین کن امور پر اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں یہ سب ایسی باتیں ہیں‘ جن کے بارے غیرمصدقہ اطلاعات پر بھی بحث نہیں ہونی چاہئے اور جہاں تک پارلیمنٹ میں بحث یا تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لینے کی بات ہے تو اِسے کسی حد تک ممکن بنانے کیلئے اِن کیمرہ سیکیورٹی بریفنگ ہو چکی ہے‘ جس کے بعد خود حکومتی اراکین بھی حزب اختلاف کے ہم خیال پائے گئے ہیں۔افغانستان حکومت کی کوششوں سے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ممکن ہوئے ہیں جن کے کلیدی کردار سے عیاں ہے کہ جس طرح پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن کو موقع ملنا چاہئے بالکل اِسی طرح خیرسگالی کے جذبات کا مظاہرہ برسراقتدار افغان طالبان کی جانب سے بھی ہوا ہے اور دو ہمسایہ ممالک کے درمیان روابط میں اضافہ‘ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش قابل قدر ہے اور اِسے کسی بھی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ پاکستان برسوں سے عسکریت پسندی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ہمارے بہت سے لوگ ایک ایسی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں‘ جسے مزید طول دینا کسی کے بھی مفاد میں نہیں اُور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے کہ جہاں حزب اختلاف اور عوام کو ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے فیصلوں پر اِعتماد کرنا چاہئے‘ جو پوری توجہ (احساس ِذمہ داری کے ساتھ) پاکستان کو تشدد کی راہ سے امن کی منزل کے قریب لا چکے ہیں۔ اور امید ہے کہ خطے میں امن کے قیام کے حوالے سے پاکستان کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد اس کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں جس سے سی پیک جیسے منصوبوں کو جلد از جلد تکمیل تک پہنچانے کا مقصد حاصل ہوگا اور معاشی استحکام کے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہوگا۔