مسئلہ یہ ہے کہ گند کہاں پھینکا جائے۔ جہاں کوڑے کے ڈھیر نزدیک واقع نہیں۔وہاں شہری چھپ چھپا کر رات کے کسی وقت اپنا گند کا شاپر کہیں نہ کہں ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ایسے میں اگر وہ اپنے گھر سے ہٹ کر کسی اور گھر کے باہربھی رکھ دیں۔انھیں کوئی کہاں دیکھتا ہے۔ اس قسم کے چوری چھپے کے کام یہاں عام ہیں۔گند کا ڈھیر نہ ہونابھی ایک پرابلم ہے۔ وہ لوگ سکون سے ہیں جن کے گھروں کے پاس کوئی لاوارث خالی پلاٹ ہو۔ وہ اپنا گند گریل لاکر یہاں انڈیل دیں گے۔ جیسے جیسے شہر ترقی کی راہ پر جا رہاہے۔توں توں کچھ اچھی باتیں پھر ساتھ کچھ مسئلے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ یہ بھی تو ہے کہ اب گند کی بالٹی کہاں گرائی جائے۔اب ہر جگہ سرکاری عملہ پہنچ بھی نہیں سکتا۔وہ یہ کریں کہ شہری حدود سے باہر جا کر کسی گلی کوچے میں کوڑے کے ڈرم رکھ دیں۔پھر وہاں سے دوچار دنوں کے بعد گند اٹھاکر لے جائیں۔ سو اس قسم کے علاقوں کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت کچھ نہ کچھ کام کرتے ہیں۔اپنا اپنا گند اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ گھر کے بچے کوڑے کی بالٹی میں رسی ڈال کر زمین پر کھینچتے ہوئے لے جا کر دور کہیں گرا دیتے ہیں۔پھر ریت کی ہتھ گاڑی ہوتی ہے۔ جس میں گھرکا سارا گند گھر میں ایک کونے میں ڈالتے ہیں۔ پھر جب بھر جائے تو اسی ہتھ گاڑی کو پہیوں پر گھسیٹ کر کوڑے کے ڈھیر پر الٹا آتے ہیں۔سوال یہ ہے اب ڈمپر کو کہاں رکھا جائے۔ایک جگہ رکھ دیں تو وہاں کے قریب رہائش کرنے والے لوگوں کو سخت اعتراض ہونے لگتا ہے۔ہفتہ دس دن مہینہ تو صبر کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر جب گند زیادہ ہو جائے اور اس عملہ وہاں نہ آئے تو قریب کے گھروں کی دہلیز تک بھی یہ گند گریل پہنچ جاتا ہے۔پھر اعتراضات بلند ہوتے ہیں کہ اس ڈمپر کو یہاں سے اٹھائیں۔ کیونکہ ہمارے مہمان آتے ہیں تو ان کے پاؤں کے ساتھ باہر کاگند ہمارے گھر میں بھی آجاتا ہے۔اب صفائی والے یہی ڈمپر اٹھاکر سڑک میں رکھ دیتے ہیں۔وہاں چونکہ کوئی دعویدار نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کوڑے دان وہاں پڑا رہتا ہے۔لوگ آکر اس میں اپنا اپنا گند گرا دیتے ہیں۔حالانکہ ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔پھر اس کی وجہ سے کوئی ٹریفک حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔مگر جہاں تک برداشت کرنے کی بات ہے لوگ برداشت کرتے ہیں۔یہ تو عملے تک ہے روز کی صفائی روز کریں تو کسی کو شکایت نہ گذرے۔کیونکہ جب گند گریل جمع ہو جائے اور اس کو پوچھنے والا ایک بھی نہ آئے تو بدبو اور سرانڈ کی وجہ سے راہ چلتوں کو بھی شکایت ہونے لگتی ہے۔ لیکن اس معاملے میں صفائی کے عملے سے زیادہ وہاں کے رہائشی لوگوں کی اپنی کوشش کو دخل ہے۔اگر وہ کوڑے او ربدبو والے اس کام میں دلچسپی لیں تو مجال ہے کہ کسی جگہ کوڑا نظر آئے۔علاقے کے لوگوں کی ڈیوٹیاں لگ جائیں۔وہ خود اس میں رضاکارانہ حصہ لیں۔پھر گند کیونکر راہ میں پڑا ہوا ملے۔دراصل ہر ایک دوسرے پر بھروسہ کرتا ہے۔چلو میں نے نہیں اٹھایا تو دوسرا اٹھا لے گا۔مگر ہمیں عادت بھی کہاں ہے۔ہم صفائی کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم تو صرف گند ڈالنا جانتے ہیں۔ بلکہ گلی میں اگر خالی پلاٹ ہو تو ساتھ والی گلیوں کے شہری بھی اپنا گند اٹھا کر اس گلی آتے ہیں او رگند ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ ان کو درکار ہے کہ اپنی گلی کا بندوبست علیحدہ رکھیں۔تاکہ بدانتظامی کی فضاپیدا نہ ہوپائے۔ ایک کہتا ہے کہ میرے گھر کے آگے کوڑے کا ڈرم کیوں رکھا ہے۔ دوسرا کہتا ہے میرے دروازے کے بالکل سامنے نہ رکھاجائے۔ گند ڈالنے والا ان میں ہر کوئی ہے۔مگر صفائی کے معاملات میں یہ لوگ ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرتے۔کورا اٹھانے میں کنی کتراتے ہیں۔حالانکہ اس جگہ کوئی اور سخت کام ہوتا تو ضرور کرتے مگر چونکہ کام بدبودار ہے۔اس لئے اس طرف کوئی نہیں آتا۔آتے ہیں گذرتے ہیں او رچلے جاتے ہیں۔جب تلک ہم ہرکام میں خود دلچسپی نہ لیں تو کوئی کام جیسا کہ اس کا حق ہے پورا ہو نہیں پاتا۔ اب سب کچھ حکومت پر چھوڑ دینابھی سخت نا انصافی ہے۔گند ہم ڈالیں اور ہمارا گند کوئی اور اٹھائے۔ اب ان کابس نہیں چلتا کہ یہ لوگ سڑکوں پر اس لئے بھی احتجاج کریں کہ حکومت کے نمائندے ہمارے گھرو ں کے اندر آ کر گند اٹھائیں۔ہم اس کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس معاملے میں ہم بہت ہوشیا رہیں۔اپنا گند خو دہی اٹھا کر گھر کے دروازے کے باہر لے جائیں گے۔اب گھر سے باہر جا کر کسی او رکے گھر کی دہلیز پر رکھنا ہے تو یہی شاپر ذرا دور جاکر گرا دیں۔ پھر سارے کا سارا گند تو وہاں نہیں پڑا رہتا۔ چیل کوے کتے چوہے اور مختلف جانور جن میں بھیڑ بکریاں اور گدھے بھی شامل ہیں اس گند میں سے کافی کھا لیتے ہیں۔جو باقی بچ جاتا ہے اس میں کاٹھ کباڑ والے اپنے اپنے مطلب کی چیزیں نکال لیتے ہیں۔ ان میں بچے بھی ہوتے ہیں جو بوریاں ساتھ لاتے ہیں اور جو چیز ان کے کام کی ہو وہ اٹھا کر بورے میں ڈالتے ہیں۔