وائٹ کالر کرائمز

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے 821 ارب روپے کی وصولیوں سے متعلق تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ذہن نشین رہے کہ سال 1999ء میں انسداد بدعنوانی کے قائم اِس ادارے (بیورو) کے قیام کے بعد ’وائٹ کالر کرائمز‘ کی کھوج میں جو مقدمات قائم کئے گئے اُن سے متعلق دعویٰ ہے کہ مجموعی طور نے وہ ”آٹھ کھرب اکیس ارب روپے“ وصول کئے ہیں جو قومی خزانے سے خردبرد کئے گئے تھے۔ نیب  کے مطابق انہوں 8کھرب 21 ارب روپے کی ریکوری کی ہے جس میں صرف 6ارب 45کروڑ 80لاکھ وفاقی حکومت کے متعلقہ محکموں کے ہیں جو وزارت خزانہ کے پاس جمع کرائے گئے ہیں جبکہ باقی ماندہ رقم دیگر متعلقہ صوبوں‘ بینکوں اور افراد کو دیئے گئے ہیں۔ نیب کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ادارے نے اپنے قیام سے ستمبر دوہزاراکیس تک انسداد ِبدعنوانی کرتے ہوئے مجموعی طور پر آٹھ کھرب اکیس ارب ستاون کروڑ سے زائد کی براہئ راست اور بالواسطہ وصولیاں کیں ہیں۔ جن میں پانچ کھرب پینسٹھ کروڑ روپے براہئ راست متعلقہ کوارٹرز کے حوالے کئے گئے‘ جن میں مالکان‘ دعویدار اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ کچھ ریکوریز میں طے شدہ قرضے‘ پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لیکویڈیٹی (پنجاب کو آپریٹو بورڈ لمیٹڈ) سمیت دیگر اداروں کے فنڈز شامل ہیں‘ جس کی رقم ایک کھرب اٹھاون ارب ستاون کروڑ روپے ہے اور یہ رقم بھی متعلقہ اداروں کو براہ راست ادا کردی گئی ہے۔ اس ہی طرح جرمانے کی مد پنتیالیس ارب اکیانوے کروڑ پچاس لاکھ روپے وصول کئے۔ یہ جرمانے مختلف احتساب عدالتوں کی جانب سے عائد کئے گئے تھے جو متعلقہ قانونی دفعات کے تحت وصول کئے گئے۔ اس کے علاوہ ملزمان تفتیش کے دوران پلی بارگین اور رضاکارانہ رقم واپس کرنے کے اختیار کا فائدہ بھی اٹھاتے رہے ہیں اور اس طرح نقد کی صورت میں رقم وصول ہوا کرتی تھی تاہم پیٹیشن نمبر 2016/17کے تحت سپریم کورٹ نے نیب کو رضاکارانہ اختیارات استعمال نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس سے قبل پلے بارگین اور رضاکارانہ طور پر رقم کی ادائیگی سے 54ارب 90کروڑ 20لاکھ روپے وصول ہوئے جبکہ دیگر ریکوریز کی نوعیت مختلف ہے۔ بحیثیت مجموعی نیب کی کارکردگی اطمینان بخش اس حوالے سے قرار دی جا سکتی ہے کہ قومی خزانے میں خاطر خواہ رقم جمع کرانے کی صورت میں اس پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی وہ بڑی حد تک پوری کر دی گئی ہے اگرچہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔