افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد غیر ملکی افواج اور سفارت کاروں کے ساتھ ہزاروں افغان شہری بھی امریکہ چلے گئے تھے۔ اگرچہ طالبان نہیں چاہتے تھے کوء افغانی ملک چھوڑے اور انہوں نے سب کیلئے عام معافی کا اعلان بھی کیا اور جانے والوں کو اپنے ملک واپس آنے کی دعوت بھی دی مگر یہ لوگ بوجوہ نہیں آنا چاہتے اور اب امریکہ میں بھی ان پناہ گزینوں کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے اہلکاروں کے مطابق ان کے انخلا آپریشن میں امریکیوں، غیرملکی اتحادیوں اور افغانیوں سمیت تقریبا 125,000 افراد کو نکالا گیا اور اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کا اندازہ ہے کہ پانچ لاکھ افغان 2021 کے اختتام تک افغانستان چھوڑنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اب تک ستر ہزار سے زائد افغان امریکہ منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے اور امدادی گروہ اور ادارے انخلا میں اتنی بڑی تعداد کی توقع کررہے تھے نہ اس کیلئے تیار تھے۔ یہ لوگ افغانستان سے امریکہ میں ایک شاندار زندگی اور سہانے مستقبل کی امید لے کر امریکہ گئے تھے۔ انخلا کے دوران بھی انہیں بڑی تکالیف اٹھانا پڑیں لیکن وہاں بھی اکثر کو سکون اور عزت کی زندگی تاحال نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ان ستر ہزار افغانیوں میں سے چھپن ہزار افغانی، جن میں نصف بچے ہیں، تاحال عارضی طور پر امریکہ کے 8 فوجی اڈوں پر بیرکوں اور خیموں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ سب مستقل گھروں میں آباد ہونے کے منتظر ہیں تاہم سست امیگریشن و تصدیقی عمل، گھروں کی قلت، بے روزگاری اور باہر گذر اوقات کیلئے نقد رقم کی عدم موجودگی ان افغان پناہ گزینوں کے بڑے مسائل ہیں۔ رہائشی سہولیات کی کمی یا بہت زیادہ کرائے ان کی آباد کاری میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور اب تک صرف 6 ہزار مہاجرین کیلئے گھروں کا انتظام کیا جا سکا ہے۔آبادکاری کے عمل کو تیز کرنے کی خاطر امریکی حکومت نے امریکیوں کو افغان مہاجرین کی نجی طور پر سرپرستی کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے ملک اور کلچر میں سکونت اختیار کرنا ویسے بھی خاصا تکلیف دہ عمل ہے لیکن ان افغان پناہ گزینوں کی صورتحال عام مہاجرین سے کہیں زیادہ خراب ہے کیوں کہ ان کی اکثریت مہاجرین کی قانونی حیثیت نہیں رکھتی جس کے تحت انہیں مہاجرین کے طور پر مراعات مل سکتی تھیں۔ پھر ان کا مستقبل بھی غیر واضح اور غیر یقینی ہے۔ اس وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سب، خصوصا ًان میں بچے اور خواتین، بے خوابی اور شدید ذہنی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔چند افغان پناہ گزینوں کو بیرکوں ہاسٹلوں میں جگہ مل گئی تھی لیکن باقی خیموں میں رہ رہے ہیں جہاں ہر خاندان کے درمیان صرف کپڑے کا ایک پردہ ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی ڈیجیٹل نگرانی بھی شروع کر دی گئی ہے۔ جن افغان باشندوں کو مشتبہ قرار دے دیا گیا ہے، ان سب کو بچوں عورتوں سمیت چپس پر مشتمل ریڈیو کالرز پہنائے گئے ہیں تاکہ ان کی ڈیجیٹل نگرانی کی جاسکے۔ ان کو ملٹری بیس سے باہرجانے کی اجازت نہیں اور ایسا کرنے والے کو واپس افغانستان بھیجنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ سینکڑوں افغان پناہ گزین، خبروں کے مطابق، امریکیوں کے رویے، سخت نگرانی اور اپنے تاریک مستقبل کے حوالہ سے بے یقینی اور پریشانی کی وجہ سے ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔اس وقت امریکہ میں ویزہ درخواستوں کے لاکھوں کیسز لاینحل ہیں اور امیگریشن عمل میں کئی محکمے اور ایجنسیاں شامل ہونے کی وجہ سے اس کی رفتار سست ہوتی ہے۔ گویا افغان پناہ گزینوں کو اپنی قانونی حیثیت کے تعین کیلئے ابھی لمبا انتظار کرنا ہو گا۔مسئلہ یہ ہے کہ امریکی امیگریشن ایجنسیاں ابھی تک وہ کاغذی کاروائی مکمل نہیں کرسکیں جو ان پناہ گزینوں کی رہائش اور روزگار میں مدد سمیت دیگر فوائد کی فراہمی اور حفاظتی نقطہ نظر سے ان کی تصدیق کیلئے ضروری ہے۔ پھر آبادکاری کیلئے درکار وسائل اور لاگت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کئی افغان "مہاجرین" کو آنے سے پہلے مشکوک قرار گیا تھا مگر کچھ اس سے پہلے ہی امریکہ پہنچ گئے تھے۔ کہا جارہا ہے غلط اور نامکمل جانچ پڑتال امریکہ کیلئے بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ صدر بائیڈن پر تنقید کی جارہی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں غیر تصدیق شدہ افغانوں کو امریکہ لاکر انہوں نے اندرونی تباہی کے بیج بودئے ہیں۔ صدر بائیڈن کے اس وعدے کے باوجود کہ ہم امریکی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہر افغان کی سخت جانچ پڑتال کرینگے، کچھ ماہرین افغان مہاجرین کی امریکہ میں نقل مکانی سے 'شہریت کی جنگ' شروع ہونے کے خدشات بھی ظاہر کررہے ہیں۔ ان کے بقول جو بائیڈن انتظامیہ نے ہزاروں غیر تصدیق شدہ افغانوں کو امریکیوں اوراتحادیوں سے پہلے نکال کر سخاوت نہیں بلکہ بڑی لاپروائی دکھائی ہے جس کے اثرات افغانستان میں شکست کی بے عزتی کے بعد طویل عرصے تک امریکیوں کا پیچھا کریں گے۔پناہ گزینوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے بیس سالہ جنگ کے دوران امریکہ کی مدد کی تھی۔ امریکہ میں اس پر اتفاق ہے کہ ہزاروں افغانوں نے بطور مترجم، ہنرمند اور ملازم امریکی فوجیوں کے ساتھ وفاداری نبھائی اور ان کی مدد کرنے کیلئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کرنا چاہئے تاکہ وہ محفوظ رہیں تاہم نقادوں کے مطابق امریکی انتظامیہ افغانستان میں حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے اسے پھر ایمرجنسی میں انخلا کرنا پڑا اور افغانستان میں موجود امریکی شہریوں،سفارت کاروں، سپیشل امیگرنٹ ویزہ یا گرین کارڈ کے حامل افغان اتحادیوں کو امریکہ لاتے وقت غیر تصدیق شدہ افغان بھی امریکہ لائے گئے جن کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔چونکہ ان "مہاجرین" کو سرکاری حیثیت دینے کا وقت نہیں تھا اس لئے انہیں پیرول پر امریکہ آنے دیا گیا۔ یہ ایک عارضی حیثیت ہے جس کی بنیاد پرانہیں کچھ عرصہ رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ عام طور پر پیرول کوئی مراعات ملنے کی ضمانت نہیں تاہم ایک خبر کے مطابق پچھلے دنوں ان پیرول پناہ گزینوں کو غیر معینہ مدت تک کیلئے رہائش، خوراک اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکی انتظامیہ، شہریوں اور امدادی اداروں کو امیگریشن کے امور و دیگر مراحل پر ان کی رہنماء اور صحت، تعلیم، ملازمت اورآبادکاری میں مدد کرنی ہوگی۔ اب تک امریکی عوام نے افغانستان سے چالیس ہزار پروازوں کا خرچہ اٹھانے کیلئے چندہ دیا ہے اور منتظمین اور بائیڈن انتظامیہ اسے دوگنا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی حکومت کو ان پناہ گزینوں کی آبادکاری کو تیز اور سہل بنانے کیلئے ایمرجنسی ریفیوجی اینڈ مائگریشن اسسٹنس کے اکاؤنٹ سے کافی رقم دینا ہوگی اور ان کی مستقل بحالی کیلئے کسی طویل المیعاد ٹھوس پالیسی بھی بنانا ہوگی۔افغان پناہ گزین صرف امریکہ میں ہی نہیں ہیں بلکہ کینیڈا نے بیس ہزار تک، برطانیہ نے پہلے سال میں پانچ ہزار اور پھر بیس ہزار تک، آسٹریلیا نے سالانہ تین ہزار اور جرمنی نے بھی ہزاروں افغانی مہاجرین کولینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ملکوں نے اس سلسلے میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کو ان ساری کوششوں کو مربوط کرنے کیلئے آگے آنا ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہاجرین سے متعلق امور کو اس سے قطع نظر کہ یہ ترقیافتہ ممالک میں ہیں یا ترقی پذیر ممالک میں سب کو برابر کی نظر سے دیکھے۔