اقبال کی شاعری 

میں نے کہا یہ علامہ اقبال کی شاعری نہیں۔اس پر وہ بہت حیران ہوئے۔پھر وٹس ایپ پر ان کا اگلا پیغام موصول ہوا۔ کیا کریں جی یہاں ہر آدمی استاد بنا ہواہے۔مزید کہنے لگے میرے ایک عزیز نے یہ شاعری بھیجی ہے۔جو میں نے آپ کو ارسال کر دی۔ وجہ یہ رہی کہ مجھے بھی شک پڑا تھا۔ کیونکہ ان اشعار میں وہ لب ولہجہ وہ طنطنہ وہ دبدبہ نہ تھا جو علامہ کی شاعری میں پایا جاتا ہے۔میں نے عرض گذاری کہ جب آپ کو معلوم تھا تو اس قسم کی تیسرے درجہ کی شاعری بھیجنے ضرورت کیا تھی۔ پھر وہ بھی آپ نے مجھے مراسلہ کر دی۔ مجھے تو اس قسم کی شاعری سے سخت چڑ ہے۔ پھر یہ توکسی طرف سے شاعری سرے سے لگتی نہیں۔پھر یہ علامہ کی شاعری کیوں ہو۔ علامہ کو عوام الناس میں کچھ بے ذوق لوگوں نے بہت ہلکا لے لیا ہے۔انھوں نے مزید فرمایا آپ سے اسی لئے رابطہ کیا تاکہ معلوم ہو پائے کہ یہ باتیں علامہ کی ہیں یا نہیں۔میں نے عرض کیا علامہ کی باتیں بہت ہیں اور شاندا ر ہیں۔ مگر اس قسم کی عامیانہ گفتگو علامہ کی نہیں۔دراصل ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ جس کے ہاتھ جو شاعری لگے وہ اقبال کے نام سے یا احمد فراز کے نام سے سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ ان کا دھیان اس کی پرکھ پرچول پر نہیں ہوتا۔ ذرا کسی باذوق یا کسی استاد یاکسی اقبال شناس سے پو چھ لیں تو پھر آپ بعد تصدیق یہ شاعری آگے کریں تو برا نہیں۔بلکہ فرض بنتا ہے کہ ہم کسی بات کو بھی جو کسی مشہور شخصیت سے منسوب ہو ذرا سی پوچھ گچھ کے بعد شائع کریں۔ مگر یہاں جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ اس پر علامہ کا نام لکھ کر بغیر چیک کئے شیئر کر دیتا ہے۔ اس سے علامہ کے نام پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔مگر خود جعلی طور پراقبال کا نام استعمال کرنے والے کی اپنی قلعی کھل جاتی ہے۔یہ غیر معیاری اشعار خود سوشل میڈیا پر بھیجنے والے کے کردا ر پر دھبہ بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ اصل میں شاعری کا ذوق بھی کسی چیز کا نام ہے۔ جو عام طور پر ہر آدمی کو حاصل نہیں۔ شوق تو ہر آدمی کی دسترس میں ہوتا ہے۔جس کو ذرا محنت کے ساتھ سیکھا جا سکتا ہے۔مگرذوق وہ نہیں جس کو محنت سے سیکھا جائے۔یہ تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ شعری ذوق کسی بچے کو بھی بغیر محنت کئے حاصل ہوتا ہے۔ پھر یہ ذوق کسی بڑے کو بھی محنت کر کے حاصل نہیں ہو پاتا۔کسی کو بھی قدرت کی طرف سے عطا ہو جائے۔بہت سے فن ہیں جو بعض بعض بندوں کو ملے ہیں۔یہ کھیل صرف اقبال کے نام کے ساتھ ہی نہیں کھیلا جارہا۔بلکہ یہا ں تو ہر مشہور شاعر کی شاعری کو جیسے بھی ہو کوئی تواپنی ڈی پی پر لگا دیتا ہے اور کوئی موبائل پر ہی اپنے سٹیٹس پر رکھ دیتا ہے۔موبائل فون پر یہ کارستانیاں عام دیکھنے کو ملتی ہیں۔فیس بک پر تو یہ حرکتیں بہت ہیں۔اصل میں ادب ہر آدمی کا مسئلہ نہیں۔ہر آدمی کو نہ تو اس سے سروکار ہے اور نہ ہی ادب کو ہر آدمی سے واسطہ ہے۔ اس کیلئے الگ لوگ ہوتے ہیں۔ گویا جس کا کام اسی کو ساجھے والی بات ہے۔ اب ہر آدمی تو شعری ذوق نہیں رکھتا ہے۔یہ غلطیا ں اسی لئے ہیں کہ کچھ مدت سے ہم لوگوں کی عادت میں یہ شامل نہیں رہا کہ ہم کسی شاعری کو ٹھوک بجا کر دیکھیں کہ یہ واقعی اس مشہور شخصیت کے نام پر ہے یا اس کے نام کو صرف استعمال کیا گیا ہے۔مگر سوشل میڈیا پر ہمارے بھائی لوگ یہ بھی نہ کریں تو اور کیا کریں۔آگے تھوڑا جھوٹ چل رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر تو چلنا کیا دوڑ رہاہے۔سو یہ بھی سہی۔ کسی شاعر کو لیں اس کے نام پر و ہ شاعری جواس نے کی ہی نہیں ہوتی وہ موبائل کی کسی بھی ویب سائٹ پر چڑھا دیتے ہیں۔کہنے والا تو پرائی شاعری کو بگاڑکر اپنے حساب سے خود بھی جھوم رہا ہوتا ہے۔پشتو میں رحمن بابا کی شاعری کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتاہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے اپنی شاعری لکھ کر دوسرے شاعر کانام ڈال دیتا ہے۔ یہ اشعار رحمان بابا اور اقبال اور فراز کے نام سے رکشوں کے پیچھے او رباڑہ کی بسوں کے اندر کھڑکیوں کے اوپر لکھے ہوتے ہیں۔پھر ٹرک جو مال لے کر پورے ملک میں گھومتے اور ہاتھیوں کی طرح جھومتے جھامتے یہاں وہاں رینگتے ہیں وہا ں بھی ان اشعار کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے جو معرو ف شاعروں کے نام سے زبردستی منسوب کر کے آویزا ں کر دیئے جاتے ہیں۔