مہنگائی‘ بے روزگاری اور معاشی پریشانیاں اپنی جگہ پڑی ہیں جبکہ حزب اقتدار و اختلاف ’انتخابی اصلاحات‘ زیادہ ”اہم قومی مسئلہ“ ہے جسے لیکر لفظی جنگ جاری ہے اور ہر فریق کی کوشش ہے کہ وہ اپنے مؤقف کو درست اُور دوسرے کو غلط ثابت کرے حالانکہ انتخابی اصلاحات کا معاملہ بنیادی طور پر تکنیکی ہے اور اِس کیلئے خودمختار و آزاد ادارہ بھی موجود ہے۔ یقینا انتخابی اصلاحات ہر انتخابات کے بعد ہونی چاہیئں اور صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے جمہوریت کو مضبوط اور توانا بنایا جا سکتا ہے۔ کوئی دو رائے نہیں کہ صاف و شفاف انتخابات کی بدولت جمہوری اور پارلیمانی نظام کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور خطرات دور کئے جا سکتے ہیں لیکن قومی فیصلہ سازوں کی ایک نظر عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مسائل کی جانب بھی مبذول ہونے چاہیئں‘ جن کا فوری اور دیرپا حل پہلے سے زیادہ ضروری اور پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ وزیراعظم کے اراکین پارلیمینٹ سے حالیہ خطاب میں ’انتخابی اصلاحات‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ”ہمارا مقابلہ مافیاز کے ساتھ ہے‘ کرپٹ نظام کی پیداوار اپوزیشن جماعتیں تبدیلی کی مخالف ہیں لیکن ہم تبدیلی لے کر آئیں گے۔“ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں انتخابی اصلاحات کو ضروری نہ سمجھنے کی وجہ سے پاکستان کی پچاس سالہ تاریخ میں ہر الیکشن متنازعہ ہوئے اور اگر انتخابی تنازعات کو ختم کرنا ہے تو اِس کیلئے ”الیکٹرانگ ووٹنگ مشین (ای وی ایم)“ کے علاوہ چارہ نہیں جس سے یقینی طور پر دھاندلی کے الزامات کا خاتمہ ممکن ہے لیکن اِس سلسلے میں حزبِ اختلاف کی طرف سے ’ای وی ایمز‘ کی مخالفت غیرمنطقی اور بلاجواز ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ”ہم ’ای وی ایمز‘ کیلئے کام کر رہے ہیں تاکہ انتخابات شفاف ہوں۔“ اُنہوں نے حزب اختلاف کو بار بار انتخابی اصلاحات کے حوالے سے تجاویز دینے کی دعوت دی لیکن وزیراعظم کی بات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین معاملات کو آگے بڑھانے کیلئے پارلیمان کا حکومت کی طرف سے بلایا گیا مشترکہ اجلاس اہمیت کا حامل تھا لیکن اسے ملتوی کردیا گیا تاکہ اجلاس سے قبل اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور اِسی سلسلے میں وزیراعظم نے بھی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین سے ملاقات کی ہے‘ جو ہر لحاظ سے خوش آئند ہے اور ایسے رابطے برقرار رہنے چاہیئں لیکن حزب اختلاف کا ردعمل مثبت نہیں۔ کیا ہم اِس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں انتخابی نظام روزِ اوّل ہی سے دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہا ہے۔ دہائیوں سے اس بات کی واقعی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر انتخابی نظام کے حوالے سے کچھ ایسی اصلاحات لائیں جن کی مدد سے انتخابی عمل کو شفاف اور سب کیلئے قابل قبول بنایا جاسکے۔ رائے دہندگی کے اظہار اور نتائج کی تیاری کیلئے برقی مشینوں کا استعمال دنیا بھر میں ہوتا ہے اور یقینا ان کے بہت سے فوائد بھی ہیں لیکن پاکستان میں دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں انتخابی نتائج کی منتقلی اور تیاری کیلئے استعمال کئے جانے والے آر ٹی ایس کے باعث جو مسائل پیدا ہوئے ان کی وجہ سے صرف الیکشن کمیشن اور اپوزیشن ہی نہیں بلکہ عوام بھی ’ای وی ایمز‘ سے متعلق تحفظات کا شکار ہوئے۔ حکومت کو چاہئے کہ الیکشن کمیشن اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اس سلسلے میں مکمل طور پر اعتماد میں لے اور عوام کو بھی اس بارے میں رہنمائی فراہم کی جائے کہ ’اِی وی ایمز‘ کے فول پروف اور غلطیوں سے پاک استعمال کو کیسے ممکن بنایا جائے گا۔ اس حوالے سے اگر الیکشن کمیشن‘ حزب اختلاف اور عوام کے تحفظات دور نہ کئے گئے تو حکومت کی طرف سے لایا گیا بہترین انتخابی نظام بھی نامقبول ہونے کی وجہ سے ناکام ہو جائے گا۔ انتخابی اصلاحات اور انتخابی نظام میں کسی بھی تبدیلی پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا مکمل اتفاق ہی اسے قابل قبول بناسکتا ہے۔ حزب اقتدار و اختلاف کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ عام آدمی کی جمہوری پارلیمانی نظام سے خیر کی توقعات وابستہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ عوام کی نمائندگی سے تشکیل پانے والا نظام قائم و دائم رہے لیکن اگر قومی ترجیحات میں تعین میں عام آدمی کو درپیش معاشی مشکلات کا خیال نہ رکھا گیا تو اِس سے جمہوریت بشمول پارلیمان کا مستقبل غیراُمیدی سے دوچار ہو سکتا ہے۔