موضوعات تو ایسے ہیں جیسے کانٹے ہوں جو جسم و جاں میں چھپتے ہیں۔دن بھر سڑکوں پر گھومنا شہر کے دور دراز میں کسی نہ کسی کام سے جانا۔ جیسے سڑک کناروں پر بکھرے ہوئے کیل ہیں۔ جو ذہن کی مقناطیسیت سے لپک کر چمٹ جاتے ہیں۔اس میں اپنی کوشش کو دخل نہیں مگر یہ خود رو عمل ہے۔جب ذہن کسی کام پر ٹیون ہو جائے تو پھر ہمہ وقت وہی کام ایک منصب کے طور پر حاصل ہو جاتا ہے۔پھر اور بجز اس کے اور کوئی کام بھی تو نہیں آتا اور نہ اور کام کوئی رہتاہے۔بقول غلام محمد قاصر”کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام۔ مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“۔ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کالم کاری کیلئے کوئی نیا عنوان تلاش کریں۔ مگر تلاش خراش کا یہ کام ایک جان بوجھ کر نہیں ہوتا۔آنکھیں جستجو میں رہتی ہیں۔ اکثر دھیان نہیں ہوتا مگر ذہن و دل کی بھرپور توجہ ہوتی ہے۔ آنکھیں جو جودیکھ رہی ہوتی ہیں وہ ذہن کے پردہ سیمیں پر ریکارڈنگ پر ہوتا ہے۔مگر ان میں بعض موضوعات زیادہ سلگتے ہوئے ہوتے ہیں اور خود بھی جلتے ہیں اور حساسیت رکھنے والے کو بھی اس بے نام سی آگ میں جلاتے جاتے ہیں۔”شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کیلئے۔ ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں“۔قتیل شفائی نے یہ شاعری کی تو ظاہر ہے کہ ان کے دل کی آواز ہوگی۔ مگر یہ تو ہر کالم کار کے قلم کی آواز ہے۔ لکھنے والا لکھے گا۔خواہ اس کے ہاتھ تک قلم ہو جائیں۔”لکھتے رہے جنوں کی حکایات ِ خونچکاں۔ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے“۔ پھر کوئی موضوع جب مل جائے تو وہ خود دو اک دن مکڑی کے جالے کی طرح دل کے اندر اپنے آپ کو بُنتا رہتا ہے۔جب ہلکی او ردھیمی آنچ پر پک جاتا ہے تو خود اپنے آپ کو لکھوانے لگتا ہے۔ہر چند کہ کالم نویس اس کے تحریر کرنے کو مائل نہ ہو مگر اس عنوان میں اتنا زور ہوتا ہے کہ وہ دو چار روز کالم کار کے ذہن کو جکڑے رکھتا ہے۔پھر کالم نگار کو الجھن ہوتی رہتی ہے۔جب تلک کہ وہ موضوع کسی تحریر کا جامہ پہن کر سفید کاغذ پر نیچے اتر نہیں آتا لکھاری کو کسی پہلو قرار نہیں ہوتا۔وہ بیٹھتا ہے کہ میں ا س انتخاب کردہ عنوان کو چھو لوں اور اس خیال کو الفاظ کا جامہ پہنا دوں۔مگر بعض اوقات وہی موضوع کہیں دور پڑا رہ جاتا ہے۔اس وقت قلم کاگھوڑا کسی او رسمت کوروانہ ہو جاتا ہے اور سرپٹ دوڑتا رہا ہے۔اس نے کسی نہ کسی موڑ پر جا کر رکنا ہوتا ہے۔اگراس سواری کو اپنی سمت میں جانے نہ دیا تو یہ اڑیل گھوڑا خود سوار کو گرا دیتا ہے۔پھر حیرانی ہوتی ہے کہ موضوع کے ساتھ ”یہ کہاں آگئے ہم یونہی ساتھ ساتھ چلتے“۔ پھر میں او رمیری تنہائی کا عالم ہوتاہے اوراس اکیلے پن میں وہ وہ میلے لگتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے کچھ نہ کچھ کورے کاغذ پر الفاظ کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔اس وقت کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ”میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں۔دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی“۔یو ں وہ تحریر کالم کہلانے لگتی ہے۔شہر میں جا بجا مسئلے مسائل ہیں جو ان گنت او ربے شمار ہیں۔جن کی طرف کسی دھیان اگر نہیں جاتا توایسا ممکن ہے اور کسی فنکار کا خیال چلا جاتا ہے تو یہ بھی امکان میں ہے۔جن باتوں کی طر ف پبلک کا دھیان نہ ہو تو رقصِ قلم کے عادی لوگوں کا خیال اسی موضوع کی طرف پڑ جاتا ہے۔حالانکہ وہ کسی اور کے لئے کوئی خاص بات نہ ہو۔ یہ نکتہ ان کے نزدیک اتنی اہمیت نہ رکھتا ہو۔ مگر اس نقطہ میں ایک جہان بند ہوتا ہے۔جس کو لکھاری اپنی تحریر میں واضح شکل دے کر سامنے لاتا ہے۔پھر یہ نقطہ پھیلتا ہے جس طرح ایک نقطہ سے پوری کائنات پھیلی ہے۔وہ عوام الناس کی رائے کو استوار کرتا ہے۔ان کو اپنے مضمون میں سوچنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ان کا دھیان اس بڑے مسئلے کی طرف دلاتا ہے۔جس کو لوگ اگنو ر کر کے آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں۔