ہر گلی کوچے کی کہانی  

میں جب اس چوک میں پہنچا۔دیکھا تو سڑک پر پانی چھڑکا ہوا تھا۔ لگتا تھا ابھی ابھی یہا ں سے چھڑکاؤ گاڑی گذری ہے۔میں خوش ہوا۔ کیونکہ سرکاری اہلکاروں کی یہ بہت اچھی کارکردگی سامنے آئی تھی۔ شہر کے اندرون بہت رش والے اس چوک میں اگر چھڑکاؤ ہو تو اس سے اچھی کیا بات ہے۔مگر یہ خوشگوار اور اچھا احساس جو دل د ماغ او رروح کو خوشبو کے جھونکے دے گیا تھا زیادہ دیر نہ رہا۔مجھے پہلے ہی شک ہوا تھا۔مگر میں نے توجہ نہ کی۔ کچھ اچھے محسوسات کو دل میں آنے دیا تھا۔ مگر کیا کریں کہ کوئی بھی کیفیت ہو پائیدار نہیں ہوتی۔مجھے اندازہ ہوا کہ یہ پانی جو مسلسل آ رہا ہے۔یہ تو کسی گٹر کے بندہونے کی وجہ سے ہے۔قریب کے نالے کی جانب نگاہ گئی تو رک گئی۔ وہا ں سے یہ پانی ابل ابل کر باہر سڑک پر آ رہا تھا۔ایک ناگوار بُوبھی ساتھ تھی۔ جو خوشگواری من کے اندر ترو تازگی پیدا کر رہی تھی وہ شیشے کے ٹوٹنے جیسے ایک چھناکے سے ذہن کے اندر پاش پاش ہوئی۔گاڑیوں کے ٹائروں کے ذریعے یہ پانی دور دور تک جاکر چاروں سمت کی سڑکو ں کو آلودہ کر رہاتھا۔یہاں گرو غبار تو نہ تھا۔ وہ جو دھول مٹی ہوتی ہے۔وہ جو گاڑیوں کے پایوں سے نکل نکل کر اوپر اٹھتی ہے اور ماحول کو گندا کردیتی ہے۔ مگر اس پانی سے کون سا یہی ماحول بہترتھا۔ آلودگی تو آلودگی ہے خواہ جس طرح کی ہو۔ماحول صاف ستھرا ہو مگر وہاں شور ہو تو یہ بھی آلودگی ہے۔ہمارا شہر آلودگی میں بھی آگے ہے اور گندگی کے معاملے میں بھی ٹاپو ٹاپ جا رہا ہے۔ مگر یہ ایک چوک کی کہانی تو نہیں۔یہ ہر چورستہ کی سٹوری ہے۔ہر گلی کوچے میں یہی مناظر ہیں۔گٹر اور نالوں کو کوڑے کا ڈھیر سمجھ کر اس میں بھاری غلاظت اور گند میں لتھڑے شاپروں کے بنڈل جو پھینک دیئے جاتے ہیں۔میں نے جان بوجھ کروہاں ایک ہتھ گاڑی والے سے سوال کیا۔پوچھا یہاں پانی کیوں کھڑا ہے۔مگر اس نے بھی کچھ کلیئر جواب نہ دیا۔ پہلے کہا وہ سامنے والی دکان کا نلکہ کھلا ہواہے۔میرے دل نے مجھ سے کہا او یار اپنا راستہ ناپ۔یہ تو کیا ہر جگہ کھڑے ہو کر ہر کسی سے سوال کرتا ہے۔مگر میں نے کہا نہیں پوچھنا ہے اور ضرور پوچھنا ہے۔ کیونکہ میں نے اس مسئلہ پر لکھنا ہے۔ شاید اس کارن کسی کی نظر پانی کی نکاسی نہ ہونے کے اس منظر پر پڑے اور اس کا دل نرم ہو۔خواہ وہ سرکاری لوگ ہوں یا خود شہری ہوں۔شہریوں اور عملہ کو آئینہ نظر آئے۔جس میں وہ اپنا بھیانک چہرہ دیکھ پائیں۔ جس میں وہ اپنے کرتوت ملاحظہ کریں تاکہ ان کواس سے لاج آئے۔اگر یہ لوگ ان نالوں میں جو گندے پانی کے لئے بنے ہیں کوڑے کے فل سائز کے بھرے ہوئے شاپر نہ پھینکیں تو اس روانی میں کیوں خلل آئے۔سو اس وجہ سے نالہ کیوں بند ہو۔اسی طرح ایک اور سڑک پر بھی اتنا پانی تھا کہ ٹوٹی ہوئی راہ کے گڑھوں میں جمع ہو کر راہگیروں کیلئے مشکلات پیدا کر رہا تھا۔ کیونکہ گاڑیاں تو وہاں آرام سے گذر جاتی تھیں۔ مگر جو پیدل جاتے تھے بچتے بچاتے پانچے اٹھاتے وہاں سے رواں دواں تھے۔ مگر ان کے دونوں پاؤں پانی میں ڈوبے تھے۔ کیا کریں ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے وہاں بھی ایک سے پوچھا کہ یہ پانی کیوں جمع ہے۔اس نے جواب دیا پانی کیو ں نہ اکٹھا ہوگا۔ نالہ میں یہ لوگ گند کے بھرے شاپر جو گرا دیتے ہیں۔ہمارے بے شمار مسائل ہیں۔ جن میں پانی کی نکاسی کا معاملہ بھی ہے۔اس میں زیادہ تر ہم خود قصور وار ہیں۔اگربعض جگہوں پرنالیاں اوپر ہیں اور گھروں کی دہلیز اور دروازے نیچے ہیں تو چلو اس قصور کو سرکاری عملہ پر ڈال دیتے ہیں۔مگر پانی گھروں میں اس وقت داخل ہوگا جب باہر گلی میں اس کوآگے کا راستہ نہیں ملے گا۔ گندے پانی کو اخراج کا موقع اگر نہیں ملتا تو وجہ یہ ہے کہ نالی میں وہاں قریب کے گھر والے گند کوڑا کرکٹ گرا دیتے ہیں۔پھر لیجئے مزا جو گھرکے فرش اکھاڑنا پڑتے ہیں۔ہزاروں لاکھوں لگا کر اینٹیں ہوں تو اینٹیں او رماربل ٹائلیں ہو تو وہ سب نوچ کر اونچے کر کے نئے فرش ڈالنا پڑتے ہیں۔اگر تھوڑی سی کوشش کر کے اپنے دماغ کو روشن کرلیں اور اس روشنی میں دن کے چار چراغ عالم میں سمجھ آنا شروع ہو جائے گا۔ ہم جب بھی بحث و تکرار کا عالم ہو باہر ملک کے ترقی والے معاشروں کی مثال دیتے ہیں۔وہاں شہری خود سڑک پر اور راہ چلتے ہوئے گند گریل نہیں ڈالتے۔گند کو کوڑے کے ڈبے میں پھینکیں گے۔بلکہ وہا ں کے چھوٹے اور ننھے منے بچوں کو بھی ایسی تربیت ملی ہوتی ہے کہ وہ پاپڑوں کے خالی پیکٹ سڑک کراس کر کے جاکر گندکے ڈبے میں پھینک کر آئیں گے۔جب تلک صفائی کی یہ تربیت گھر سے حاصل نہ ہو ہم میں گند گرا دینے کی ادا یونہی اپنی بھرپور نحوست کے ساتھ قائم رہے گی۔ہمارے ہاں کا ایک بندہ باہر ملک گیا تو راہ چلتے ہوئے کیلا کھا کر چھلکا وہاں سڑک پر گرا دیا۔اتنے میں ایک بچہ کہیں سے نمودار ہوا۔ بچے نے منہ سے کچھ نہ کہا مگر اس آدمی کو ہنس کردیکھا اور نیچے ہو کر چھلکا خوداٹھاکر سڑک کنارے لگے پلاسٹک کے ڈبے میں پھینک دیا۔