اگر بھارت واقعی افغانستان میں امن لانے اور علاقائی سلامتی کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنے میں مخلص ہے تو اسے پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل اور درست کرنا ہوگا۔ اسے مکاری، بدنیتی اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی عادت چھوڑ کر اخلاص، احترام اور مفاہمت پر مبنی رویہ اپنانا ہوگا۔افغانستان بارے بھارت کی موجودہ پالیسی غیر حقیقی توقعات، غیر ضروری خدشات، غلط ترجیحات، عیاری اور بدنیتی سے عبارت ہے۔ ان حالات میں دہلی کانفرنس جیسے اقدامات غیر موثر ہی رہیں گے۔بھارت افغانستان پر پاکستان کو بدنام اور تنہا کرنا چاہتا تھا مگر آج وہ خود افغانستان کے معاملے میں تنہا اور سرگرداں ہے۔ ایک طرف دہلی میں ہونے والے افغان علاقائی سلامتی مباحثہ (دہلی کانفرنس) میں اہم ترین سٹیک ہولڈرز جیسے پاکستان، چین اور افغانستان نے شرکت ہی نہیں کی جبکہ دوسری اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ٹرائیکا پلس اجلاس میں افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس، روس کے خصوصی سفیر ضمیر کابلوف، چین کے خصوصی سفیر یوی زیاو یونگ اور طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی شریک ہوئے اور موخر الذکر پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے۔پھر افغان طالبان پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات میں ثالث کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔دہلی کانفرنس میں صرف بھارت، روس، ایران، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان کے قومی سلامتی مشیر شریک ہوئے۔ اس میں پاکستان، چین، امریکہ اور افغانستان کی طالبان حکومت کی عدم شرکت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سفارشات پر عمل درآمد کے امکانات صفر رہ گئے، علاقائی سلامتی میں اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی اور یہ صرف نشستن، گفتن اور برخاستن تک محدود رہ گئی۔ دہلی کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق افغانستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے یا ان کی تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے یا دہشت گردی کو مالی امداد فراہم کرنے کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم ان باتوں کی تو طالبان حکومت پہلے ہی متعدد بار یقین دہانی کروا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام ممالک نے دہشت گردی کی تمام شکلوں اور انتہاپسندی کے خلاف اپنے عزائم کا اعادہ کیا تاہم کیا بھارتی حکومت ملک کے اندر بھی انتہاپسندوں کی سرکاری سرپرستی چھوڑنا چاہے گی جو تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرچکے ہیں۔بھارت کی افغان پالیسی غیر حقیقی توقعات سے عبارت ہے۔ اس نے وہاں جن لوگوں پر سرمایہ کاری کی تھی وہ ڈوب گئے تو انہوں نے اپنے ساتھ بھارت کو بھی ڈبو دیا۔ اس کے سفارت کاروں اور ان گنت انٹلی جنس اہلکاروں کو افراتفری میں افغانستان سے نکلنا پڑا اور وہاں اس کا جاسوسی نیٹ ورک اور پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کی تربیت و سرپرستی کا نظام نہ رہا۔ پھر اس نے طالبان کی مسلسل مخالفت کی تھی اور آج وہ افغانستان کے حکمران ہیں۔ پچھلے بیس برسوں میں ڈیموں، سڑکوں، سکولوں، ہسپتالوں، اور بجلی وغیرہ کے منصوبوں میں لگے اس کے تین ارب ڈالر ڈوبتے نظر آئے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ پھر افغانستان کو پاکستان مخالف سرگرمیوں اور سازشوں کا گڑھ بنانے کے قابل ہوجائے لیکن اب وہ دور واپس نہیں آسکتا اور اب وہ افغانستان میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ تاہم افغانستان کے حوالے سے اس کی یہ محرومی، پریشانی اور تنہائی اس کی غلط ترجیحات، غلط پالیسیوں، غلط اندازوں و ارادوں اور بے بنیاد خدشات کا ہی نتیجہ تھی۔ وہاں طاقت کی سیاست میں فریق بن کر، طالبان مخالف گروہوں کا ساتھ دے کر اور طالبان سے مسلسل دشمنی کرکے اس نے خود ان مسائل ومشکلات کو دعوت دی ہے۔اب بجائے اس کے یہ افغان عوام اور طالبان سے معافی مانگ لیتا، پاکستان کے ساتھ فوری باہمی مذاکرات شروع کرتا، طالبان سے بہتر تعلقات کیلئے پہل کرتا اور افغانستان پر ٹرائیکا پلس کی کوششوں کا ساتھ دیتا، اس نے اہم سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر دہلی کانفرنس کرکے خوامخواہ اپنی سبکی کا بندوبست کردیا۔ واضح رہے بھارت ٹرائیکا پلس، جس میں پاکستان، روس، چین اور امریکہ شامل ہیں، کا رکن نہیں کیوں کہ اس میں وہ ممالک شامل ہیں جن کا افغانستان میں براہ راست کردار ہے یا ان کا فریقین پر کوئی اثر رسوخ ہے۔ جبکہ ضمیر کابلآف کے مطابق انڈیا کا طالبان پر کوئی اثر نہیں۔ اس بیان نے بھارت کی اہمیت کی قلعی کھول دی۔بھارت کی افغان پالیسی غیر ضروری خدشات پر بھی مبنی ہے۔ یہ خوامخواہ پریشان ہو رہا ہے‘یوں بھی اگر پاکستان چاہتا تو کیا بھارت اور طالبان حکومت کا رابطہ اور بات چیت ممکن ہو پاتی۔ بھارت کی افغان پالیسی عیاری اور بدنیتی سے بھی عبارت ہے۔ وہ افغانستان میں اپنے تزویراتی اور معاشی مفادات، مثلاً اپنے مخالف گروہوں پر رکھنا، پاکستان اور چین کا اثر ورسوخ گھٹانا، پاکستان مخالف گروہوں کی حمایت کرنا اور وسط ایشیائی ممالک تک تجارت کیلئے رسائی حاصل کرنا، کیلئے کوشاں ہے مگر بھارت یہ سب کرنے کیلئے خلوص نیت کی بجائے عیاری سے کام لیتا رہا ہے۔پچھلے سال فروری میں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا جس کے تحت امریکہ نے افغانستان سے چند مہینے بعد انخلا کا وعدہ کیا اور یہ بات واضح نظر آنے لگی کہ افغانستان جلد طالبان کے ہاتھوں میں ہوگا تو بھارت نے چالاکی دکھاتے ہوئے اپنے قومی سلامتی کے مشیر کے ذریعے پاکستان کو دسمبر 2020 میں مذاکرات کی پیشکش کی۔ اس کا مقصد افغانستان میں اپنے ممکنہ کردار کیلئے پاکستان کا رویہ نرم کرنا اور اعتراض سے روکنا تھا۔ کرتا رہے گا، اس سے رابطے اور مکالمہ بھی بند رکھے گا، ماضی میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف اپنی سازشوں کا اعتراف کرے گا نہ اب پاکستان کا مقابلہ کرنے کی روش سے باز آئے گا۔