درپیش چیلنجز کا مقابلہ 

کرہ ارض کے مختلف حصوں سے خیر کی خبریں کم اور شر کی خبریں زیادہ آ رہی ہیں۔ بھارت کی مشرقی سرحدات انتشار کا شکار ہوتی جا رہی ہیں اگلے روز آ سام رائفلز کے کمانڈنٹ اور ان کی فیملی کو ماو زے تنگ کے مقامی پرستاروں نے ہلاک کر دیا کہ جنہیں ما ؤ نواز کہا جاتا ہے۔ گو کہ آ سام کے حکام میانمار کی حکومت کو اس واقعے کا ذمہ وار ٹھہرا رہے ہیں ان کا الزام ہے کہ قاتل میانمار سے آسام میں گھس آئے تھے اس سے پہلے اسی علاقے میں مقامی پولیس کے ہاتھوں 20 ما ؤ نواز باغیوں کی ہلاکت کی خبر بھارتی میڈیا میں شائع ہوئی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی مشرقی ریاستوں میں امن عامہ کی زبوں حالی اس کی بقا کے واسطے دن بہ دن خطرے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ ادھر یورپ میں بھی کئی مقامات پر امن عامہ کو خطرہ درپیش ہے۔ پولینڈ کسی دور میں وارسا پیکٹ کا رکن تھا اور سیاسی معاملات میں سویت یونین سے ڈکٹیشن لیا کرتا تھا حالات کی گردش دیکھئے آج وہ نیٹو کا رکن ہے اور بیلاروس کے ساتھ سیاسی پناہ گزینوں کے ایک مسئلے میں الجھا ہوا ہے روس بیلاروس کی حمایت میں آن کھڑا ہوا ہے اور اس کے مد مقابل برطانیہ پولینڈ کی ہلہ شیری کر رہا ہے۔ بیلا روس پر امریکی حکام کا یہ بھی الزام ہے کہ وہ ان امریکیوں کو اپنے ہاں سیاسی پناہ دے رہا ہے کہ جو سابق امریکی صدر ٹرمپ کے حامی ہیں اور جو امریکہ میں سرکاری املاک پر قبضہ کرنے کے الزام میں پولیس کو مطلوب ہیں۔ لگ یہ رہاہے کہ جہاں تک امریکہ کی آئندہ افغان پالیسی کا تعلق ہے امریکہ آج کل قطر کو طالبان کے ساتھ معاملاتِ طے کرنے میں بطورِ ایلچی استعمال کر رہا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب افغانستان سے وہ اپنی فوجیں نکال رہا تھا تو وہ کابل میں بگرام ایئر ہورٹ کا چارج ترکی کے حوالے کرنے کو بھی تیار تھا۔ آج اس نے ترکی کو اس معاملے میں مکمل طور پر سائیڈ لائن کیا ہوا ہے۔ ادھر یمن میں بھی خانہ جنگی اور کشیدگی بدستور جاری ہے، دوسری طرف سوڈان حبشہ اور اریٹیریا میں بھی جنگ و جدل کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ان ممالک میں بیرونی قوتوں نے کافی سرمایاکار ی اپنے اپنے مخصوص سیاسی اور مالی مفادات کیلئے کر رکھی ہے ان علاقوں میں جو کشیدگی ہے وہ مصر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کیونکہ دریاے نیل جو کہ مصر کو سیراب کرتا ہے اس کا منبع مندرجہ بالا تین علاقوں میں ہے کہ جہاں پانی کا ایک بہت بڑا ڈیم بیرونی سرمایہ کاری سے بنایا جا رہا ہے۔ مصر کو خدشہ ہے کہ کہیں اس کے حصے کا پانی اس سے چھین نہ لیا جائے۔ جہاں تک وطن عزیز کا تعلق ہے تو یہاں پر بھی مشرقی پڑوسی کی سازشیں جاری ہیں اور ایک طرف اگر وہ افغانستان سے بے دخل ہوگیا ہے تو دوسری طرف اسے آرام نہیں اور کوشش کررہا ہے کہ وطن عزیز میں اپنی تخریبی کاروائی میں کامیاب ہو جس میں اسے کوئی بڑی کامیابی تو نہیں مل رہی تاہم اکا دکا وارداتوں سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں لگا ہو اہے۔بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے افغانستان سے متصل اضلاع میں تخریبی قسم کی دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے اس ملک کے دشمنوں کا ہی ہاتھ ہے جو ان کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ گزشتہ روز باجوڑ کی تحصیل خار کے علاقے راغگان میں سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا۔ دھماکے میں دو پولیس اہلکار شہید ہو گئے اسی طرح گزشتہ ہفتے کے روز بلوچستان میں دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں اور بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کے دوران پاک فوج کے 3 جوان شہید ہوئے اگر آپ مندرجہ بالا واقعات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دنیا کے تقریبا ہر خطے میں کچھ امن دشمن ممالک یا قوتیں ضرور ہیں۔ اور آخر میں اب ذرا وطن عزیز کی تازہ ترین سیاسی صورت حال پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو وہ بھی کوئی زیادہ تسلی بخش دکھائی نہیں دیتی۔سیاسی جماعتیں حکومت کوٹف ٹائم دینے کی کوششیں کررہی ہیں جبکہ ان کی توجہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کی مدد کرنے پر مرکوز ہونی چاہئے کہ یہ ملک ہوگا اور یہاں استحکام ہوگا تو پھر سیاست بھی ہوگی اور دیگر سرگرمیاں بھی۔کسی بھی حکومت نے ماضی میں اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دی،جن میں سے ایک معیشت کو دستاویزی شکل دینا بھی ہے۔ ملک میں منصفانہ ٹیکسیشن کا نظام کیسے نافذ ہو کہ ابھی تک ہم اپنی معیشت کو دستاویزی ہی نہ کر سکے۔ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے باوجودہم پر تعیش مہنگی ترین گاڑیاں کاسسمیٹکز کا سامان کھانے پینے کی اشیا وغیرہ کی امپورٹ پر ایک کثیر زر مبادلہ لٹا رہے ہیں۔دیکھا جائے تو اس وقت جو مسائل وطن عزیز کو درپیش ہیں تو اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم سب نے مل کر کام کرناہوگا۔ سامان تعیش اور ان چیزوں کو خریدنا بند کرنا ہوگا جو مہنگے داموں بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ اس میں خواص اور عوام سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔