مجھے شکایت ہے ان ماں باپ سے جو اپنے بچوں کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ان کے بچے جن کے پاؤں زمین پر نہیں لگتے وہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر علاقے محلے میں گھومتے ہیں۔ بلکہ انھوں نے بائیک چلانے کے دوران میں اپنے پیچھے ایک اور بچے کو بٹھا رکھا ہوتا ہے۔جو ان کابھائی بھی ہوتا ہے اور گلی محلے کا دوست یار بھی۔حالانکہ پولیس کی طرف سے اس بات کو درست نہیں سمجھا جاتا۔ پھر نہ ہی ہمارے معاشرے میں کوئی بھی عقل مند فرد اس بات کے حق میں ہے۔مگر اس کے باوجود یا تو بچے چوری چھپے بائیک نکال لیتے ہیں۔پھر بعض مقامات پر تو خود گھر کابڑا فرد پیچھے بیٹھ کربچے کو بائیک چلانا سکھلا رہاہوتاہے۔ان کو لاج آنی چاہئے۔لاڈ پیار کایہ مطلب نہیں کہ اب بالشت بھر کے چھوکروں کوکار ڈرائیور کی سیٹ پر بٹھادیں۔جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔یہاں کار چلانا یا بائیک چلانے کی بات نہیں۔بچے کار اور بائیک تو چلا لیں گے۔مگران بچوں میں سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔جس کی وجہ سے انھیں اس بات کا فرق کرنا مشکل ہوتاہے کہ دورانِ ڈرائیونگ کیا اچھاہے کیا برا ہے۔پھر اس میں تجربہ بھی بہت بڑے استاد کے طور پر کام کرتاہے جو ان بچوں میں نہیں پایا جاتا۔قانون میں بھی اس کی اجازت نہیں۔ پچھلے دنوں پولیس نے اس حوالے سے کریک ڈاؤن بھی کیا۔ ٹریفک والے ان بچوں کی تلاش میں بھی رہتے ہیں۔مگر مسئلہ جوں کا توں ابھی تک موجود ہے۔ اس کے باوجود اب تک بچوں کی بائیک رائڈنگ کاسلسلہ تھما نہیں ہے۔پولیس والے بائیک کو بھی اٹھاکر ڈاٹسن میں ڈالتے ہیں اور بائیک چلانے والے بچے کو بھی۔پھران کے بڑوں کو تھانے بلایا جاتا ہے۔مگرجانے کیاہوتا ہے وہی بچے وہاں سے چھوٹ کروالد کے موٹر سائیکل سے دوبارہ سے شہر کی سڑکوں کو کچل رہے ہوتے ہیں۔اس موقع پر پولیس کر بھی کیا سکتی ہے۔بچوں کو اٹھاکر حوالات میں بند تونہیں کرتے۔پھر نہ ہی ا ن کو جیل بھجواتے ہیں۔ماں باپ کو تنبیہ کر کے گھر لوٹادیتے ہیں۔مگر ماں باپ بڑے بھائی یا کسی اور فرد کوپابندکرنا چاہئے کہ اس بچے کو موٹر سائیکل چلانے کیلئے نہ دیا جائے۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ بچے کو کھیلنے کیلئے ہاتھ میں بھری ہوئی کلاشنکو ف تھما دی جائے۔ کلاشنکو ف سے گولی تو چلاتے ہیں۔مگر بچوں کے بازؤں اور کاندھوں میں زور بھی تو ہونا چاہئے۔ ماں باپ اس بات کواچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کے بائیک چلانے سے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔مگر وہ ان کومنع نہیں کرتے۔یہ بچہ لوگ خود کو تو زخمی کریں گے مگر دوسرے راہگیروں کوبھی موت کے منہ میں دھکیل سکتے ہیں۔جیسا کہ ہوا ہے۔آئے دن اس قسم کے واقعات ہو تے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی اس قسم کے حادثات کی موویاں اپ لوڈ ہو جاتی ہیں۔ مگر ہم لوگوں نے جو قسم کھا رکھی ہے کہ عبرت نہیں پکڑنا نہ ہی اس قسم کے دل دہلادینے والے حادثات سے کوئی سبق سیکھنا ہے۔ صرف بائیک چلانا ہی تو نہیں بائیک کو بازؤں کے زورسے اپنے قابو میں بھی رکھنا ہے۔جو ان بچوں کے بس کا کام نہیں۔گل بہار پشاو رمیں دو ہفتہ قبل ایک واقع ہوا۔جس میں ایک شہری جان سے گیا۔وہ کمزوری او ربیماری کے سبب گھر کے قریب تھا کہ موٹر سائیکل سوار گلی کے بچوں نے مستی اور جوش وخروش میں اس بندے کو کمر پر ٹکر مار دی۔ وہ اوندھے منہ زمین پر گرا۔ اس کو ماتھے میں اندرونی چوٹ لگی۔ خون باہر تو نہیں نکلا مگر سر کے اندر خون جم گیا۔ مختصر یہ کہ وہ مریض چند روز کوما میں رہ کر دنیا سے گذرگیا۔ گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔مگر ان بچوں کے والدین کا دل نرم نہ ہوا۔پھر مرنے والے کے لواحقین نے بھی کیا ایکشن لینا تھا۔ وہی بات کہ بڑے تو نہ تھے بچے تھے اب بچوں کو کیا کہا جا سکتاہے۔ایسے موقعوں پر بچے توکیا بڑوں کوبھی ہمارے ہاں اکثر اوقات معاف کر دیا جاتاہے۔ کچھ جرمانہ یا تاوان دے دلاکر خون کی معافی مل جاتی ہے۔ہمارے ہاں مجرم کو اس حوالے سے بہت آزادی حاصل ہے۔والدین بچے کے لاڈ پیار کی وجہ سے اور شاید نمود ونمائش کے سبب اپنے کم سن بچوں کو موٹر سائیکل چلانا سکھلاتے ہیں۔اس ان کو ایک طرح کا فخر حاصل ہوتا ہے۔مگر یہ تو الٹا شرمندگی کا مقام ہے کہ والدین اتنے بے حس ہو ں کہ اپنے بچوں کو بائیک چلانا سکھلائیں۔پھر خود مائیں بھی انھیں بچوں کے پیچھے بیٹھ کر بازار میں سے ہوتی ہوئی جاتی ہیں۔ ان کو چاہئے کہ بچے کو اس قسم کی حرکت سے منع کریں۔ اس میں منع کرنے سے مراد یہ ہے کہ خود بچے کیلئے بھی اس میں جانی نقصان ہے۔پھر عمر بھر کی معذوری بھی حاصل ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ کسی دوسرے کو ٹکر مار دی اور وہ بھی مرسکتا ہے اور تازندگی معذور ہو سکتا ہے۔اگر دالدین یا گھر کے بڑے اس پر متوجہ ہوں کتنااچھا ہو۔