تقریری مقا بلہ 

ملک کے نا مور اور مشہور تعلیمی اداروں میں مباحثے اور تقریری مقا بلے کے لئے طلبااور طالبات کو پروگرام سے5منٹ پہلے مو ضوع دیا جا تا ہے 5 منٹ کے اندر اپنا ذہن بنا کر نا م لکھوا نا پڑ تا ہے پھر روسٹرم سے نا م پکا ر نے پر ہر ایک کو فی البد یہہ اظہار خیال کر نا پڑتا ہے اس میں طالب علم اور طالبہ کی ذہنی استعداد، قابلیت اور بولنے کی صلاحیت سامنے آتی ہے لا ہور، مری، اسلا م آباد اور نو شہر ہ کے معیا ری پرائیویٹ سکولوں میں اس پر عمل ہوتا ہے اور یہ سب کے علم میں ہے لیکن سرکاری سکولوں اور کا لجوں میں اس پر عمل نہیں ہوتا سر کاری سکولوں اور کا لجوں میں مبا حثہ یا تقریر ی مقا بلہ ہو تو اساتذہ کی لکھی ہوئی تقریریں طلبہ کو رٹہ کے ذریعے یا د کروائی جا تی ہیں اصل مقا بلہ طلبہ کے درمیان نہیں ہو تا بلکہ اساتذہ کے درمیان ہو تا ہے بارہ ربیع الاول کو ایک بڑے نشر یاتی ادارے میں تقریری مقا بلہ کے منصف حضرات پر اُس وقت کڑی آزمائش آئی جب ایک سکول سے ساتویں جما عت کی طا لبہ روسٹرم پر آئی اس کو جو تقریر لکھ کر دی گئی تھی وہ شستہ ادبی زبان میں تھی لکھنے والے نے تاریخ طبری، تاریخ مسعودی‘ تفسیر ابن کثیر اور صحیح بخا ری کے حوالے جا بجا لکھے ہوئے تھے یہ تقریر کسی بھی طرح ساتویں جما عت کی طالبہ کی تقریر نہیں لگتی تھی تا ہم طا لبہ نے اس کو خوب یا د کیا تھا آ نکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے بھی خوب کام لیتی تھی سامعین اور حا ضرین سے باربار داد وصول کر تی تھی کسی بھی منصف یا جج کیلئے اس کو نظر انداز کرنا مشکل تھا مو ضوع سے ہٹ کر بولنے پر اس کو نظر انداز کرنا پڑا ساتھ نوٹ بھی لکھنا پڑا کہ لکھنے والے نے مو ضوع کو نظر انداز کیا ا س لئے طا لبہ کے نمبر کم آئے‘ ہمارے دوست نے ایک بار ارباب بست و کشاد کی مو جود گی میں تجویز دی کہ سر کاری سکولوں میں تقریری مقا بلے لاہور اور مری کے تعلیمی اداروں کی طرح فی البدیہہ کر ائے جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسا تذہ کی لکھی ہوئی تقریروں کا مقا بلہ بند کیا جائے اس کا کوئی فائدہ نہیں ایک بڑے پر و گرام کے مو قع پر ان کو بحیثیت منصف یا جج اظہار خیا ل کی دعوت دی گئی تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اس مقابلے کی 8تقریروں میں سے 4میر ی لکھی ہوئی تھیں اور 4عبید الرحمن کے قلم کے شہکار تھیں 3 ججوں میں سے دو جج وہ لو گ تھے جن کی لکھی ہوئی تقریر وں کا مقا بلہ تھا حا ضرین سے داد سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا میں نے دو تقریر یں مو ضوع کے حق میں اور دو تقریریں ایوان کی رائے کے خلاف لکھ کر دیئے تھے میرے دوست عبید الرحمن کا طریقہ واردات بھی اس سے مختلف نہ تھا اگر صو بائی اور ضلعی سطح کے حکام کسی جگہ مل بیٹھیں مشا ورت اور میٹنگ کریں پھر فیصلہ کریں کہ لا ہور اور مری کے مشہور تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری سکولوں میں بھی تقریری مقا بلہ یا مبا حثہ کے لئے مو ضوع پرو گر ام سے 5منٹ پہلے دیا جا ئے گا طلبا اور طالبات فی البدیہہ تقریروں کے ذریعے فن کا مظاہر ہ کرینگی تو اس فیصلہ سے تعلیمی نظام میں ہم نصا بی سر گر میوں کو نئی زند گی اور نئی جہت ملے گی طلباء اور طالبات کی صلا حیتیوں کو جا نچنے کا مو قع ملے گا تقریری مقا بلہ صحیح معنوں میں تقریری مقا بلہ ہو گا اس پر جھوٹ اور فریب کا ملمع نہیں ہو گا۔