موسم سرما کی شدت کے ساتھ ’گیس بحران‘ میں تیزی آ رہی ہے جس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے یا اس کا سامنا کرنا حکومت کیلئے آسان نہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت گھریلو صارفین کو دن میں صرف تین مرتبہ گیس فراہمی کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ مائع گیس (ایل این جی) کی کم مقدار میں دستیابی کے سبب یہ بحران پیدا ہوا ہے۔ آنے والے چند مہینوں (خصوصاً دسمبر سے مارچ تک) جبکہ سردی کی شدت ملک کے بالائی اور میدانی علاقوں میں ہوگی‘ اُس وقت گیس کی شدید قلت کے باعث گھریلو صارفین کو دن میں تین مرتبہ چند گھنٹوں کیلئے گیس فراہمی بھی ممکن نہیں رہے گی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ رواں برس (سال دوہزاراکیس بائیس) کا موسم سرما عوام کیلئے زیادہ مشکلات کا باعث ہوگا کیونکہ اِس عرصے کیلئے گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کسی بھی صورت عوام کی توقعات کے مطابق نہیں۔ کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے حالیہ اجلاس میں بھی اِس بارے میں غور ہوا اور گیس قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے بارے فیصلہ سازوں نے غوروخوض کیا۔ اجلاس نے دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے گھریلو صارفین کو کھانا پکانے جیسی بنیادی ضرورت کیلئے دن میں 3 گیس فراہمی پر اتفاق کیا گیا۔ درحقیقت یہ وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) کی سفارش تھی جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ گھریلو صارفین کو کم دورانیئے کے لئے گیس فراہم کی جائے۔ گیس بحران کا ایک سبب غلط منصوبہ بندی بھی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ماہرین توجہ دلا رہے تھے کہ آنے والے سردی کے مہینوں کے لئے مائع گیس (ایل این جی) بروقت درآمد کی جائے یا اِس کی خریداری کر لی جائے تاکہ موسم سرما کے دوران گیس کی فراہمی میں تعطل نہ آئے لیکن فیصلہ سازوں نے ماہرین کی جانب سے اُٹھائے گئے توجہ دلاؤ نکات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی۔ پاکستان کا معمول رہا ہے کہ یہاں ہر سال موسم سرما میں گیس حسب طلب دستیاب نہیں ہوتی۔ یہ کوئی خبر نہیں کہ دسمبر سے مارچ کے درمیان گیس نہیں ہوگی لیکن خبر یہ ہے کہ گیس فراہمی سے متعلق اِس مرتبہ بھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اگر حکومت گیس بحران سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کرتی تو اِسے ’کم سے کم سطح پر‘ رکھتے ہوئے سنبھالا جا سکتا تھا۔گزشتہ برس کے تناظر میں دیکھا جائے تو آئندہ ماہ (دسمبر دوہزاراکیس) میں گیس کی کمی (شارٹ فال) 22ملین کیوبک فٹ یومیہ ہونے کا امکان ہے۔ یہ کمی جنوری میں بڑھ کر 137 ملین کیوبک فٹ تک بڑھ جائے گی اور پھر فروری اور مارچ میں کم ہو کر 75 ملین کیوبک فٹ رہ جائے گی۔ حکومت نے صنعتی پہیہ چلتے رہنے کیلئے چند شعبہ جات کو گیس لوڈشیڈنگ سے استثنیٰ دیا ہے جیسا کہ بجلی کا پیداواری شعبہ اور کھاد بنانے والی صنعتوں گیس کی فراہمی جاری رہے گی کیونکہ اُنہیں قومی پائپ لائن نیٹ ورک سے الگ گیس فراہم کی جائے گی‘ جس کے باعث گھریلو صارفین کیلئے دستیاب گیس میں ایک ہزار سے بارہ سو ملین مکعب فٹ گیس کی قلت رہے گی۔ صنعتوں کے مقابلے گھریلو صارفین بہت ہی کم مقدار میں گیس فراہم کرتے ہیں بالخصوص دن ایک بجے تک کھانے پکانے کی ضروریات کیلئے گیس کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہی وقت ہوٹلوں کیلئے بھی کھانے پکانے کا ہوتا ہے‘ جو چھوٹے پیمانے پر روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ملک میں گیس کی فراہمی کے دونوں ترسیلی ذرائع سے منسلک کھاد کے کارخانوں کو گیس کی کل وقتی فراہمی کیلئے الگ سے انتظامات کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ اِس بحرانی صورتحال میں بلاتعطل فعال رہ سکیں جبکہ کھاد اور بجلی کے نجی پیداواری یونٹس کو گیس فراہم کر کے گھریلو صارفین کو نظرانداز کرنا اور گھریلو صارفین جو اپنے گیس واجبات کی ادائیگی میں صنعتی صارفین سے زیادہ فعال ہیں‘ کے مفادات کی قربانی کسی بھی طرح مثالی صورتحال نہیں جس کا وزیر اعظم کو نوٹس لیتے ہوئے گھریلو اور صنعتی گیس صارفین کو درپیش مسائل دور کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیراعظم کو گیس کے بحران کے ایک محرک یعنی ناقص منصوبہ بندی اور بروقت اقدامات نہ کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہئے‘ جنہوں نے حکومت کو ’گیس بحران‘ کی صورت بڑی آزمائش اُور مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہی وقت بجلی و گیس کے شعبوں میں خسارے پر بھی نظر کرنے کی ہے کہ بجلی کے ترسیلی شعبے میں خسارہ 18 فیصد (45 ارب سالانہ) جبکہ گیس کے ترسیلی شعبے میں خسارہ 14فیصد (105 ارب سالانہ) کے مساوی ہے۔ صارفین کے لئے بُری خبر یہ ہے کہ گیس بحران 2030ء تک جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ پاکستان کی مقامی پیداوار میں سب سے بڑا حصہ سوئی کا ہے جس کی پیداوار قومی ضرورت کا صرف چھ فیصد ہے۔ گیس بحران سے نکلنے کیلئے سوفیصد درآمدی ذرائع پر انحصار کرنا پڑے گا جبکہ قومی پیداوار بڑھانے کیلئے مالی وسائل کی کمی آڑے آ رہی ہے۔ گیس کے شعبے کو درپیش دائمی مسائل اور دائمی قلت کے ساتھ‘ صارفین مستقبل کا تصور کر سکتے ہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے پیشگوئی کر رکھی ہے کہ پاکستان کے اندرون ملک تیل کے ذخائر 2025ء تک جبکہ 2030ء تک پاکستان میں قدرتی گیس کے مقامی ذرائع ختم ہو جائیں گے!