خون کے آنسو

پٹرول مہنگاہونے کی سمری تیار ہے۔ پٹرول مزید مہنگا ہوگا۔ پٹرول مہنگا ہونے کی سمری پر دستخط کر دیئے گئے ہیں۔ عوام پر مہنگائی کا پٹرول بم گرا دیا گیا ہے۔پٹرول مہنگا ہونے کی سمری مسترد کر دی گئی ہے۔اس نوعیت کی بہت سی خبریں ہیں جو سرخیوں میں ہیں۔ اخبارات ہو ں یا ٹی وی کے نیوز چینل ہوں۔یہی صدائیں کانوں کو اندر باہر سے چھیل رہی ہیں۔کوئی دن نہیں جاتا کہ پٹرول کے مہنگا ہونے کا خدشہ یا پھر مہنگا ہو جانے کی اطلاع گردش میں نہ ہوں۔ہمارا تو جینا دوبھرہو چکا ہے۔کسی کل قرار نہیں ہے۔چینی مہنگی ہو رہی ہے۔ اس شہر میں اتنے کلو گرام پر فروخت ہو رہی ہے اور دوسرے شہر میں الگ سے نرخ پر اس کی سیل جاری ہے۔ڈالر کی اڑان پھر سے اتنے روپوں پر پہنچ گئی ہے۔دو دن بعد پھر دوبارہ سے ڈھائی ہزار فی تولہ سونے کے نرخ چڑھ گئے ہیں۔چوبیس گھنٹے مشکل سے گذرے ہوں گے کہ دوبارہ سے نئی خبر سننے کومل جاتی ہے او رگوگل پر ٹاپ ٹرینڈ میں یہی سرخی دیکھنے کو ملتی ہے کہ سونا پانچ ہزار فی تولہ اور بھی گراں ہوگیا۔پھر سنتے ہیں کہ اب آٹا بھی مہنگا ہونے جا رہا ہے۔پھر آٹامہنگا ہو جاتا ہے۔ایک ہی عوام ہیں بیچارے اور بے بس۔ ایک چکی میں نہیں درجنوں چکیوں میں پس رہے ہیں۔ کبیر داس نے کہا تھا ”چلتی چکی دیکھ کر دیا کبیرا رو۔ دو پاٹن کے بیچ میں آکر بچ کے گیا نہ کو“۔کبھی پٹرول تو کبھی سونا اور کبھی ڈالر تو پھر آٹا۔عوام چکی کے دوپاٹوں کے بھاری پتھروں کے بیچ میں گندم کے دانے کی طرح پھنس کر پس گئے ہیں۔ کب تلک اور کب تک یہ گرانی اوپر جاتی جائے گی۔ آخر ا س کی کوئی انتہا بھی ہے۔مزدور کی ماہانہ کمائی اگر اتوار کی چھٹیاں نکال کر حساب کریں تو زیادہ سے زیادہ بیس ہزار ہے۔وہاں کم سے کم تنخواہ سترہ ہزار مقرر ہے۔اگر ایک گھر کے پانچ افراد ہوں۔فی آدمی ایک روٹی صبح دوپہر شام کاخرچہ ہوتو یہ بھی کل خرچ سات ہزار روپے ہے۔ جو کم از کم ہے۔ بندے زیادہ کر تے جائیں او رہر گھر کے حساب سے روٹیوں کی تعداد بھی زیادہ کر دیں  تو صرف روٹی ہی بیس ہزار کی آتی ہے۔پھر ایسے عالم میں بندے کی بھوک کی طرف بھی دھیان ہو تو صرف روٹی کاخرچ ہی کنٹرول میں نہیں۔پھر ایسے میں انڈے دالیں اور گھی روز کے حساب سے مہنگے ہو رہے ہوں تو پھر یہ ماہانہ اخراجات کہاں جا کر ٹکر مارتے ہیں۔۔ایسے میں عام آدمی کیاکرے گا۔بھوکوں مرنے کا وقت آ گیا ہے۔گھی خریدیں گے یا چولھا جلائیں گے۔چولھا جلے مگر اس میں گیس بھی تو ہو۔ گیس نہ ہو توخس و خاشاک بھی مہنگی ہو چلی ہے۔پائپ میں گیس آنے کا الگ ٹائم ٹیبل جاری ہو گیا ہے۔بجلی کے ایک بلب پر ہزاروں کا بل دینا ہوگا۔ ورنہ بجلی کا میٹر جرمانہ پہ جرمانہ کے ساتھ کاٹ کر لے جائیں گے۔کپڑے تو ہاتھوں پر دھو لیں گے مگر صابن اور سرف بھی درکار ہوگا۔۔بچے پاپڑ مانگیں یا ٹافیاں۔ ان کو بہلائیں چپ کروائیں۔ ضد کرنے پر دو چانٹے رسید کر دیں۔واشنگ مشین میں بھی بجلی چلتی ہے۔”ہمارے گھر میں تو چولھوں پہ برف جمتی ہے۔مرے پڑوس میں لکڑی کا ٹال اب بھی ہے“۔پھر ایک دوسرے کی مدد بھی کوئی کہاں تک کرے گا۔جن کے پاس ہے وہ مزید جمع کرنا چاہتے ہیں۔جن کے پاس نہیں وہ ترس رہے ہیں۔کوئی مردِ راہ داں آئے ان کو مصیبت سے چھٹکارا دلائے۔یہ ہم کس نگریا میں آ گئے ہیں۔پٹرول مہنگا ہو جائے تو ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے تو راتوں رات درشن بھی مہنگے ہو جاتے ہیں۔وہ کہا ں سے کہاں اوپر چلے جائیں گے اور نیچے طبقہ والے مزید زندہ درگور ہو جائیں گے۔غریبوں کی سواری بائیک کو بڑے سٹینڈ پر گھر کے ایک کونے میں کھڑی کر دو اور اس پر دھول مٹی نہ پڑے۔ سو اس کو ایک چادر سے ڈھانپ دو۔پیدل گھومو سودا سلف لاؤ۔ کہیں آؤٹنگ تو گئی بھاڑ میں ضروری کام سے بھی نکلنا ہو تو پٹرول کا سیاپا ہوگا۔یہ سیاپا ایک چیز کا تو نہیں جانے کس کس شئے کو رونا ہوگا۔مگر دو دن بعد جو یہی چیزیں اور دوسری ضرورت کی اشیائے صرف جو مزید مہنگی ہوں گی اس کا رونا بھی تو دو دن بعد رونا ہے۔مگر ایڈوانس میں رولیں۔اتنے پیسے تو کہاں۔مگر اب اتنے آنسو بھی کہاں سے آئیں ”اک روز کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے۔ ہر روز کے رونے کو کہاں سے جگرآئے“۔پھر وہ شعربھی تو ساتھ رونے دھونے چلا آیا ہے ”اے دل تجھے رونا ہے تو جی کھول کے رولے۔دنیا سے بڑھ کے کوئی ویرانہ نہ ملے گا“۔اب تو اشک بھی خشک ہو چلے ہیں۔آنکھوں سے خون کے آنسو نکلنے کو ہیں۔ بات ایسی بھی نہیں کہ بالکل مایوسی کی کیفیت طاری ہو بلکہ مشکل حالات سے نکلنے کے لئے بحیثیت قوم سب کو ذمہ داری نبھانی ہوگی۔