خارجہ اور قومی امور

عالمی افق پر جنگ کے جو بادل گزشتہ کئی دنوں سے منڈلا رہے تھے اب وہ زیادہ گہرے اور کالے ہوتے جا رہے ہیں آرمینیا اور آذربائیجان میں ایک مرتبہ پھر جنگ چھڑ گئی ہے اگر آرمینیا کو روس اور ایران کی حمایت حاصل ہے تو دوسری طرف ترکی آذربائیجان کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ آرمینیا نے تو کھلم کھلا روس سے امداد بھی طلب کر لی ہے۔پر کیا روس کھل کر میدان جنگ میں اترے گا؟ نیرنگی سیاست کا اندازہ آ پ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک بعض جگہ خارجی امور میں ہم آہنگ نظر آ تے ہیں تو کئی دوسری جگہوں پر ان کی سیاسی سوچ اور پالیسی ایک دوسرے سے کافی مختلف دکھائی دیتی ہے امریکہ اور چین کے موجودہ صدور ماضی میں کم و بیش ایک ہی وقت میں اپنے اپنے ملک کے نائب صدر رہے ہیں اور تب سے وہ اس حوالے سے ایک دوسرے کو گذشتہ 17 برسوں سے اچھی طرح جانتے ہیں اگلے روز ان دونوں صدور نے آپس میں ورچوئل کانفرنس کی ہے مغربی میڈیا کے مطابق اس کے دوران چینی صدر نے امریکی صدر پر یہ واضح کر دیا ہے کہ بہتر ہوگا اگر تائیوان ریڈ لائن کو کراس نہ کرے ورنہ اسے پھر اپنے کیے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یاد رہے کہ امریکہ ایک طرف تو بیجنگ کو ہی چین کی واحد نمائندہ حکومت تسلیم کرتا ہے تو دوسری جانب وہ تائیوان کی حکومت کی ہلہ شیری بھی کرتا ہے۔ قارئین کی انفارمیشن کیلئے عرض ہے کہ روس44 فیصد تک یورپ کی گیس کی ضروریات پوری کرتا چلا آرہاہے جو اسے یوکرائن کے رستے جانے والی پائپ لائن سے سپلائی کی جا رہی ہے اب روس نے یوکرائن کو بائی پاس کر کے ایک علیحدہ ڈائرکٹ گیس پائپ لائن بھی بچھائی ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں تھی کہ جرمنی نے اس کا ٹھیکہ کینسل کرکے یکسر علاقے میں روس کیلئے ایک بڑا مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ یوکرائن اور روس کے تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ ہیں۔نہ لبنان ابھی تک سنبھل سکا ہے اور نہ لیبیا اور عراق۔سوڈان حبشہ اور اریٹیریا کا امن عامہ بھی ڈانواں ڈول ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہاتھ پیر تو بہت مار رہی ہے کہ اس کے پاؤں زمین پر جم سکیں پر پس پردہ امریکہ اس کی بیخوں میں ابھی تک پانی دے رہا ہے۔ ویت نام میں شکست کھانے کے بعد اس کے دل و دماغ اور جسم پر جو زخم 1960 کی دہائی میں لگے تھے وہ ابھی پوری طرح مندمل نہ ہوئے تھے کہ افغانستان میں اس کو مزید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ یہ بات خوش آئند ہے کہ ماضی میں طالبان حکومت کے برعکس اس بار طالبان مختلف ہیں طالبان نے اگر مستقبل میں بھی اسی روش کو اپناے رکھا تو اس سے ان کے افغانستان میں اقتدار کو دوام پہنچے گا۔ مندرجہ بالا عالمی امور کے ذکر کے بعد ذرا ایک نہایت ہی اہم قومی سطح کے ایک معاملہ کا بھی ذکر ہو جائے کہ جس کا وطن عزیز کو براہ راست سامنا ہے وزیراعظم نے اگلے روز بجا فرمایا کہ اس ملک کو بہت جلد پانی کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ماہرین کی رائے کے مطابق زیر زمین پانی کی سطح تشویش ناک حد تک گر چکی ہے چند سال قبل پچاس فٹ کی کھدائی کے بعد زمین میں پانی نظر آ جایا کرتا تھا آج چھ سوفٹ کی کھدائی کے بعد کہیں جا کر پانی کا سراغ ملتا ہے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر سال سات ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے یہ اگر متعلقہ ماہرین اور حکومتوں کی سستی نہیں تو پھر کیا ہے اسی طرح ہر سال ربیع اور خریف کی فصلوں کو 45 فیصد تک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خدشہ یہ ہے کہ اگر ہم نے اس معاملے میں اسی طرح غفلت سے کام لیا تو 2025میں یہ ملک مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہو جائے گا اس خطرے کی گھنٹی 1990میں متعلقہ بین الاقوامی ادارے نے بجا دی تھی‘ جہاں تک دنیا میں پانی کے استعمال کا تعلق ہے ہم سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے بلکہ یوں کہئے پانی ضائع کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہیں ہمارے پاس صرف دو ایسے ڈیم  ہیں کہ جہاں پر ہم صرف 30 دن کا پانی سٹور کر سکتے ہیں جبکہ امریکہ 900 دنوں کا پانی سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں جو پانی آتا ہے وہ ایک سو پینتالیس ملین ایکڑ فٹ ہے ہم صرف 13.7 ملین لیٹر فیٹ پانی جمع کر سکتے ہیں اور 29 ملین ایکڑ فٹ کا سیلابی پانی ضائع کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے نئے ڈیم بنانے کی طرف ابھی تک سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔