یہ زندگی ہے پریشانیاں تو ہوتی ہیں 

اگر موم بتی اپنی آگ اور پھر اس تپش میں سوزش کے ہاتھوں نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔پھراس کاعلاج ایک ہی ہے۔وہ یہ کہ اس کو پھونک مار کر بجھا دینا چاہئے۔اس سے شمع کو جلن اور چپ چاپ کڑھنے س ڑنے سے خلاصی مل سکتی ہے۔یہ نکتہ غالب نے بہت خوبی سے واضح کیا۔اگر شمع اپنے ا س سوز سے تنگ نہ بھی ہو تب بھی اس کو اپنے وقت پر جل کر ختم ہو جانے سے نجات مل ہی جاتی ہے۔پھر لازمی ملتی ہے۔یوں کہ اسے کوئی بجھائے نہ بجھائے یہ صبح کے وقت جب دن کی سفیدی افقِ آسمان پر نمودار ہوتی ہے۔یہ اپنے موم کے ختم ہوجانے کی وجہ سے خود بخود بجھ جائے گی۔ اگر کوئی اس کو گل کردینے کی زحمت گوارا نہ بھی کرے۔بلکہ موم بتی تو کیا چراغ  اور سارے تارے رات بھر روشنی دے کر جلتے ہوئے انگارے بنے سحر کے وقت پو پھوٹتی ہے۔ اس وقت سورج اس اندھیرے کے فریم کو چیر کر باہر سر نکالتا ہے تو ستارے ہوں یا چاند اپنی سوزش اور تپش سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔اس تمام تر ابتدائیہ کا مقصد کہ شمع کو شمع نہ سمجھیں۔کیونکہ غالب نے بھی شعر میں شمع سے مراد موم بتی نہیں لیا۔انسان اگر غم اور دکھ سے فراغت چاہتا ہے تو اس کاعلاج موت ہے۔ جب تلک پوری زندگی کی ایک رات گزارتا ہے اس نے دکھوں میں تڑپناہے۔  اگر وہ اس کیفیت سے نجات حاصل نہ بھی کرنا چاہے تو ایک وقت میں اس نے اپنی مقررہ مدت گذار کے ختم ہوناہوتا ہے۔سو اگر تڑپ سے نجات زندگی میں نہیں ملتی تو مر کر مل جائے گی۔ وگرنہ توزندگی میں جلنا کڑھنا تو ہوگا۔ کون ہے وہ جو زندہ ہو اور پریشان نہ ہو۔ اگرمالی پریشانی نہ ہو تو صحت کی طرف سے فکر لاحق ہوگی۔ کوئی کیا بیمار ہے اور کوئی کس آزار کو جھیل رہا ہوتا ہے۔”اداسیوں کا سبب کیا کہیں بجز ا س کے۔یہ زندگی ہے پریشانیاں تو ہوتی ہیں“۔ وہ انسان خواہ ہمارے ہاں کا یاسات سمندر پار کی دنیا کا ہے۔ہر ایک کی اپنی پریشانیاں ہیں۔ کسی کو کیا محرومی حاصل اور کوئی کس بات سے محروم ہے۔کسی کو کسی محبت نہیں ملی تو کسی کو روپے پیسے کی ضرورت ہے۔کسی کو صحت چاہئے اور کچھ بھی درکار نہیں۔ کسی کو گم شدہ ماں باپ جو تہہِ خاک سوچکے ہیں کسی بھی قیمت پر چاہئیں اور کسی کو اپنا بڑا بھائی درکار ہے جو دنیا چھوڑ گیا۔ جس کیلئے وہ ساری دنیا کی دولت اپنا عہدہ اور منصب بھی دینا چاہتا ہے۔مگر ایسا نہیں ہوتا۔ہر ایک کے سینے کے اندر کے دکھ ہیں جوانگاروں کی طرح جل کر سینے میں راکھ کاایک اور ڈھیر روز لگا دیتے ہیں۔ کسی ماں کو مر جانے والا بیٹا درکار ہے تو کسی باپ کو اپنا اکلوتا فرزند چاہئے جو ستارہ تھا اورمٹی میں رُل گیا۔پھر ان اموات سانحات او رحادثات سے ہٹ کر کسی کو دو وقت کی روٹی چاہئے۔”کبھی کسی کو یہاں حسبِ آرزو نہ ملا۔کسی کو ہم نے ملے اور کسی کو تو نہ ملا“۔غالب کا وہ شعر یہ ہے۔”قیدِ حیات و بندغم اصل میں دونوں ایک ہیں۔موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں“۔انسان تو انسان ہے قطرہ نہیں ذرہ نہیں پورا جہان ہے۔یہاں ہمیں تو روٹی پانی کی فکر ہے۔مگرہمارے ہاں رشتوں کاتقدس باقی ہے۔میل جول ہے بہن بھائی ہیں ماں باپ اولاد ہے۔ رشتوں کی خوشبو سے ہمہ وقت ہمارے دل و ماغ خوشبو دار رہتے ہیں۔مگر دوسرے ترقی یافتہ معاشروں میں جہاں دولت کی ریل پیل ہے وہاں سب کچھ ہے روٹی پانی علاج و معالجہ کسی چیز کا غم نہیں۔لیکن وہاں کی سوسائٹی میں رشتوں ناتوں کی خوشبویات نہیں۔  قانون کی رُو سے آپ اپنے بچوں کو اپنے حکم کا پابند نہیں کر سکتے۔ یہ اب آزاد ہیں۔ پھر وہاں اسی موقع پر ”مقامِ سودو زیاں ہے تو ٹھہر جا اے دل۔کہ اسی موڑ پہ یاروں سے ہوئے یار جدا“۔انسان کی زندگی اپنی جگہ خواہ جس جگہ ہو غم و خوشی دونوں سے عبارت ہے۔ پھر ان معاشروں میں جہاں روپیہ پیسہ نہیں وہاں تو انسان کی قیمت کہا ں ہوگی۔ سو اس لئے کہا کہ ”رفاقتوں میں پشیمانیاں تو ہوتی ہیں۔کہ دوستوں سے بھی نادانیاں تو ہوتی ہیں“۔ ”اے شمع تو نے رات گذاری ہے جس طرح۔ میں نے تمام عمر گذاری ہے اس طرح“۔یا پھر خواجہ میر درد نے کہا ”سر تا قدم زبان تھے جوں شمع گو کہ ہم۔پر یہ کہا ں مجال کہ کچھ گفتگو کریں“انسان کا منصب یہی کہ خاموشی سے تمام صدمات سہے۔پھر بھی شکر کرے کیونکہ یہی مقامِ دعا ہے ”چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز۔ دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے“۔کیونکہ انسان ہوگا اور اس کو پریشانی نہیں ہو گی ایسا تو نہیں ہوسکتا۔