مہنگائی اور عوام

لائق توجہ امر یہ ہے کہ مہنگائی کے اسباب اور اِس کی وجوہات میں 2 بنیادی محرکات کارفرما ہیں۔ ایک ذخیرہ اندوزی جس کے باعث اجناس کی کثرت کے باوجود مصنوعی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسرا زیادہ منافع کیلئے اجناس کی قدر میں مصنوعی اخراجات کا حوالہ دیتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ پولٹری ڈیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مرغیوں کو دی جانے والی خوراک (feed) کا بنیادی جز ’سویابین‘ ہوتا ہے جس کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے مرغیوں کی خوراک پر لاگت زیادہ آتی ہے اور اِس لاگت کے باعث اُن کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں۔ پولٹری ڈیلرز کے دعوے کے مدنظر سویابین کی درآمد‘ دستیابی اور اِس کی قیمتوں سے متعلق مکمل رپورٹ اگر عام کر دی جائے تو مناسب ہوگا۔کیونکہ صنعتی پیمانے پر مرغبانی کرنے والے اِسی ایک نکتے پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں۔خیبرپختونخوا کو فراہم ہونے والی فارمی مرغیوں کی زیادہ تر کھیپ پنجاب کے شہر چکوال سے آتی ہے‘ جہاں کے مرغبان اداروں (چکن فارم ہاؤسز) میں چکن کی فی کلوگرام قیمت 240 روپے مقرر کی گئی تھیلیکن اگر خیبرپختونخوا میں قیمتیں چکوال کے چکن فارمز ہاؤسز سے زیادہ ہوئیں تو پھر افغانستان مرغیوں کی برآمدات (ایکسپورٹ) پر پابندی عائد  کی جا سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے محکمہئ خوراک (فوڈ ڈیپارٹمنٹ) کو بااختیار (مجاز) بنا دیا گیا ہے کہ اگر افغانستان مرغیوں کی برآمد کے بعد مقامی (یعنی خیبرپختونخوا میں مرغی  کی) قیمت میں اضافہ ہوا تو محکمہ اپنے طور پر کاروائی کرتے ہوئے برآمدات روک (معطل کر) سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس سے قبل گزشتہ ماہ محکمہئ خوراک نے افغانستان برآمد ہونے والی مرغیوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور اِس پابندی میں ایک دن کے چوزے کی برآمد بھی روک دی گئی تھی۔ اِس سے قبل (مئی دوہزار اکیس) میں افغانستان سے متصل اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو حکم دیا گیا تھاکہ وہ مرغیوں اور اِن کے گوشت سے بننے والی مصنوعات کی برآمدات روکیں جبکہ عیدالاضحی سے قبل (جون دوہزاراکیس) مال مویشیوں کی افغانستان برآمدات پر پابندی عائد کی گئی تھی تو اِن سبھی اقدامات کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں مال مویشیوں اور مرغیوں کی قیمتوں میں اعتدال دیکھا گیا جبکہ اِس سے قبل اِن میں ردوبدل (اضافہ) ایک معمول بن چکا تھا اور ایک موقع پر تو مرغی چارسو روپے فی کلوگرام تک جا پہنچی تھی۔اگر کوشش کی جائے اور تمام متعلقہ امور پر نظر رکھی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ طلب و رسد میں توازن قائم کرتے ہوئے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھا جا سکتا ہے۔