امن مذاکرات: امکانات و خدشات

”امارت اسلامی افغانستان“ کی ثالثی میں حکومتِ پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مابین مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور ایک ماہ کی جنگ بندی پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔ان امور پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ امن و سلامتی ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ نیک نیتی اور قربانی کے جذبے کے تحت بات چیت ہی تنازعات کو حل کرنے کا مسلم طریقہ ہے اور یہ کہ جدید دور میں حکومتوں اور متحارب گروہوں میں امن مذاکرات ہوتے اور ان سے مسائل حل ہوتے آئے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ طاقت کا استعمال اور قوت نافذہ صرف ریاست کا حق ہے اور یہ کہ کوئی تنظیم ریاست کے ساتھ نہ ہمیشہ لڑسکتی ہے نہ اسے شکست دے سکتی ہے۔ مختلف عوامل کے پیش نظر یہ بات بلا خوف تردید کی جاسکتی ہے کہ یہ دیرپا امن کیلئے اچھا موقع ہے۔ ”امارت اسلامی افغانستان“ کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ثالثی پر دونوں فریق متفق ہیں اور یہ کہ مذاکرات اچھے ماحول میں ہورہے ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ ان کے بقول حکومت اور عسکریت پسند دونوں مذاکرات کرنے میں مخلص ہیں۔ دونوں طرف یہ احساس موجود ہے کہ صرف طاقت کے استعمال سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور اس کیلئے بالآخر مذاکرات اور تصفیہ کرنے پڑتے ہیں۔ یاد رہے وزیر اعظم عمران خان صاحب ہمیشہ سے بات چیت کے حامی رہے ہیں۔ سب سے بڑی یہ بات کہ ریاستِ پاکستان مضبوط پوزیشن سے مذاکرات کرنے جارہی ہے۔ ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان پہلی بار مذاکرات نہیں ہورہے۔یہ بات تو واضح ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہماری معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔  لیکن پاکستانی سیکورٹی اداروں نے عوام کے تعاون سے مقابلہ کرکے قلیل مدت میں دہشت گردی پر تقریبا قابو پالیا۔ مکمل امن لانے کیلئے مستقل جنگ بندی، مذاکرات اور امن معاہدہ ضروری ہے۔دوسری صورت میں اگر مذاکرات منعقد اور کامیاب نہ ہوں تو پھر آپریشن پر اٹھنے والے مالی اخراجات اور اس کے نتیجے میں املاک کے نقصان اور مقامی و بین الاقوامی سرمایہ کاری ختم ہونے کے علاوہ عوام اور سیکورٹی فورسز کے جانی نقصان، متاثرہ جگہوں سے عوام کی نقل مکانی، خوف کی فضا اور حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی عوارض وغیرہ کو پیش نظر رکھیں اور اس حقیقت کو بھی نظر میں رکھیں، اس لئے سب سے بہتر  آپشن یہی دکھائی دیتا ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں، معاہدہ ہوجائے۔ مذاکرات کے معاملے پر  قوم کی اکثریت بھی یکسو ہے۔جدید تاریخ میں برطانیہ اور آئرش ریپبلکن آرمی کی سیاسی ونگ شم پین کے مابین مذاکرات یا امریکہ اور افغان طالبان کا فروری 2020 کا معاہدہ، اس تناظر میں مذاکراتی عمل کی کامیابی اور معاہدے کے امکانات روشن ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے افغان طالبان افغانستان پر امریکہ کے قبضے کو یا افغان آئین /حکومت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور امریکی فوج کے انخلا اور افغان حکومت کے استعفی سے پہلے مذاکرات کیلئے تیار نہ تھے۔ مگر پھر وہ ان شرائط کے بغیر مذاکرات کرنے بیٹھ گئے۔ اسی طرح امریکہ بھی طالبان کی طرف سے جنگ بندی سے پہلے مذاکرات نہیں چاہتا تھا پھر وہ افغانستان کی سابق طالبان حکومت کو نہیں مانتا تھا مگر طالبان مصر تھے کہ معاہدہ امریکہ اور”امارت اسلامی افغانستان“ کے مابین ہوگا‘ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ معاہدے میں لکھا گیا کہ یہ معاہدہ امریکہ اور امارت اسلامی افغانستان‘ جسے امریکہ تسلیم نہیں کرتا‘کے درمیان ہو رہا ہے۔ یعنی دونوں کو لچک اور مفاہمت سے کام لینا پڑا۔