تناؤ ابھی گھٹا نہیں 

آ رمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازعہ ابھی حل طلب ہے‘روس کا جھکاؤ گو کہ اول الذکر کی جانب ہے ہر وہ آ ذربائیجان سے بھی دشمنی مول لینا نہیں چاہتا اور اس جھگڑے میں مصالحتی کردار ادا کر رہا  ہے کیونکہ ماضی میں یہ دونوں ممالک کبھی سوویت یونین کا حصہ ہی تو تھے جنہیں آج روس دوبارہ اپنے ساتھ یکجا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور پھر لگتایہ ہے کہ روس اپنے گرد ونواح میں اس وقت کسی قسم کا بھی انتشار بالکل نہیں چاہتا۔ادھر امریکی صدر بائیڈن نے یہ کہہ کر تائیوان کے حکمرانوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے کہ وہ جانیں اور ان کا کام‘امریکہ صرف ایک چین کو مانتا ہے کہ جس کا دارالحکومت بیجنگ ہے‘انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی یہ واضح کر دیا ہے کہ تائیوان آئندہ اب اس سے اس معاملے میں کسی امداد کی توقع نہ رکھے‘اس میں شک کی کوئی بات نہیں کہ تائیوان پر اگر چین فوج کشی کرنا چاہے تو وہ اس کے واسطے صرف  ایک دن کی مار ہے۔ یاد رہے کہ تائیوان جو mainland china کا جز ولاینفک اور اٹوٹ انگ ہے امریکہ کی انگشت پر چین کے خلاف استعمال ہوتا چلا آ یا ہے پر یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب چین کی تمام تر توجہ اپنی ڈویلپمنٹ کی طرف تھی اور وہ اس وقت امریکہ سے پنگہ لینے کے موڈ میں نہ تھا آج حالات یکسر مختلف ہیں اور امریکہ کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ اب تائیوان کو چین کے خلاف بطور سیاسی کارڈ استعمال کرنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اس لئے اب اس نے تائیوان کی سیاسی قیادت کی امداد سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہیں‘حال ہی میں امریکی اور چینی صدور کی جو ورچول کانفرنس ہوئی ہے اس میں امریکی صدر نے اپنے اتحادی ملک بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں پر بھی مکمل خاموشی اختیار کی ہے چین نے ماضی قریب میں لداخ اور تبت کے نزدیک واقع کئی علاقوں میں اپنی فوج بجھوا کر وہاں سے بھارتی فوجیوں کو چلتا کیا ہے بھارت نے اپنی عافیت اسی بات میں سمجھی کہ وہ چپکے سے بغیر کوئی چوں چراں کئے انہیں خالی کر دے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ان علاقوں میں وہ چین کی مدافعت نہیں کر سکتا گو بھارت کی قیادت کو امریکہ کے صدر کی اس سرد مہری پر افسوس تو ضرور ہوا ہو گا۔ادھر تا دم تحریر افغانستان میں بھی بھارت کی دال نہیں گل رہی اور تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ افغانستان کی کسی حکومت نے اسے لفٹ نہ کرائی ہو‘سائنس کے میدان میں حیرت انگیز دریافتیں ہو رہی ہیں جو انسانی عقل کو دنگ کر رہی ہیں۔اینٹی ایئر کرافٹ گن کے بارے میں تو آپ نے ضرور سنا ہوگا پر اب روس نے اینٹی سیٹلائٹ توپ بھی ایجاد  کر لی ہے اور اس کے ذریعے وہ خلا میں کسی بھی سیٹلائٹ کو نشانہ بنا کر اسے ریزہ ریزہ کر سکتا ہے‘حال ہی میں اس نے اس ضمن میں ایک تجربہ کیا ہے جس پر امریکہ سخت سیخ پا ہے اور اس نے رو س سے گلہ کیا ہے  کہ اس تجربے سے گو کہ روس نے اپنا ہی سیٹلائٹ گرایا  ہے پر خلا میں موجود امریکہ کا سیٹلائٹ بھی اس کی زد میں آ سکتا تھا اس کے جواب میں رو س نے یہ موقف اختیار کیا  ہے کہ انہوں نے نہایت محتاط طریقے سے یہ تجربہ کیا ہے اور اس سے کسی بھی دوسرے ملک کے سیٹلائٹ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا جس طرح موجودہ چینی قیادت سائنسی ٹیکنالوجی کے فروغ  میں بے حد دلچسپی لے رہی ہے بالکل اسی طرح روس کے  صدر پیوٹن بھی اس میدان میں روس کی نشاط ثانیہ کے لئے سخت کوشاں ہیں۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ روس اور چین کی طرح جن ممالک میں حکمرانوں کو حکومت کرنے کیلئے طویل عرصہ ملتا ہے وہ اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے میں کافی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں۔