شہری منصوبہ بندی

توجہ طلب ہے کہ صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر شہری علاقوں کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی رہائشی بستیاں آباد ہو رہی ہیں لیکن منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث رہائشی مسائل بڑھ رہے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے شہری منصوبہ سازوں کو درپیش چیلنجز عیاں ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک یا صوبے میں آبادی کا مرکزی شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان نئی بات نہیں جس کا ایک محرک موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہیں کہ لوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں باسہولت علاقوں کا رخ کرتے ہیں‘ شہری مسائل بیک وقت متضاد اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کو حل کرنے کا براہ راست اثر شہروں کی اقتصادی زندگی‘ شہریوں کے باہمی سلوک اور شہروں میں فراہم کردہ سہولیات کی عمر پر بھی پڑتا ہے جیسا کہ یوٹیلٹی نیٹ ورکس‘ پانی‘ فضلہ و کوڑاکرکٹ کی تلفی‘ صفائی‘ بجلی‘ گیس اور ٹیلی کمیونیکیشن نظام متاثر ہوتا ہے اور اِس کے اثرات معاشی‘ سماجی اور ماحولیاتی کارکردگی پر مرتب ہوتا ہے۔ مذکورہ بنیادی ضروریات یا سہولیات وہ ذرائع ہیں جن پر شہری زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے چند ایک شہر ہی ایسے ہیں جہاں کسی نہ کسی طور ”شہری منصوبہ بندی“ کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے لیکن یہ منصوبہ بندی بھی محدود ہونے کے باعث آبادی کے بڑھنے سے بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اِس سلسلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پشاور کی حیات آباد بستیاں ایک جیسی صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں کہ جہاں کے مکین اب بنیادی سہولیات کی شکایت کر رہے ہیں اور ایک وقت میں جب یہ باسہولت و مثالی رہائش گاہیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب ہر سمت پھیلنے کے باعث متاثر دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان کے تمام شہروں کے کسی نہ کسی حصے کو ”منصوبہ بندی (ماسٹر پلان)‘‘کے تحت بنایا گیا ہے لیکن ماسوائے اسلام آباد کوئی دوسرا شہر شہری منصوبہ بندی کی مثال نہیں لگتا ۔ شہری ترقی میں خامیوں کے حوالے سے پشاور اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مماثلت پائی جاتی ہے کیونکہ اِن دونوں شہروں کے مضافات میں جاری ترقیاتی عمل بالخصوص نئی ہاؤسنگ سکیمیں (رہائشی بستیاں) اُن سبھی قواعد کی خلاف ورزیوں کا مجموعہ ہیں جس سے شہر کی خوبصورتی اور یہاں سہولیات کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ بنیادی قانون یہ ہے کہ کسی بھی ایسی اراضی پر ”رہائشی بستی‘‘تعمیر نہیں ہو سکتی جس کا استعمال زراعت کے لئے ہو رہا ہو اور اگر اِس بنیادی اصول (قاعدے) کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور کے طول و عرض میں جاری نجی تعمیراتی عمل کا جائزہ لیا جائے تو سبھی رہائشی بستیاں زرعی اراضی پر آباد ہیں۔ درحقیقت پشاور ضلع خیبر کی طرف نہیں پھیل رہا‘ جہاں میلوں پر غیرآباد اور غیرزرعی اراضی پھیلی ہوئی ہے لیکن آبادی کا زور ”جی ٹی روڈ‘‘سے رنگ روڈ کے جنوبی و شمالی حصوں پر ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نجی شعبے سے توقع رکھتی ہے کہ وہ زرعی اراضی کو رہائشی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرے۔پاکستان کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں پینے کے پانی کی قلت کسی نہ کسی صورت موجود ہے اور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہروں کے پھیلنے سے متعلق حکمت عملی میں ذیلی شعبوں  کا خاطرخواہ اہتمام نہیں کیا جاتا۔