کلاس میں ٹیچر کواس وقت لطف آتا ہے۔جب طلباء پڑھائی میں سنجیدہ ہوں۔ میں ادب کی کلاس کی بات کررہاہوں۔ پھر خاص اردو ادب کی۔مگر ادب میں چونکہ بحثیں اور مباحث زیادہ ہوتے ہیں۔اس لئے وہاں کلاس کاماحول ایک اوپن فورم بن جاتا ہے۔وہاں تو کبھی دو اور دو چار نہیں ہوتے او رکہیں دو دو چار چار بھی ہوتے ہیں۔جس میں ہر سٹوڈنٹ اپنا خیال پیش کرسکتا ہے۔حساب ریاضی میتھس الجبرا میں سو میں سو مل سکتے ہیں مگر ادب کے پرچوں میں زیادہ نمبر نہیں آتے۔ مگرجس نے ٹودی پوائنٹ لکھا ہو اور سوال کو آخر تک بہ احسن نبھا لے گیا ہو وہ زیادہ سکور بھی کرلیتاہے۔پھر بات ایم اے اردوکی کلاسوں کی ہے۔سکول کے کم عمر بچوں اور کالج کے لڑکوں کوادبی مباحثوں سے سروکار نہیں ہوتاکیونکہ ان کو اردو کے علاوہ کورس میں شامل دیگر مضامین بھی پڑھنا ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اردو بلکہ اردوادب کی طرف مکمل یکسوئی سے متوجہ نہیں ہو پاتے۔اردو اور اردو ادب میں بہت فرق ہے۔ اردو کے مضمون میں تو معاشرے کا ہر مسئلہ زیرِ نظرآتا ہے۔منشیات پر بھی بات ہو تی ہے اور رشتوں ناتوں کی اہمیت بھی اجاگر کی جاتی ہے۔پھر اورمعاشرتی پہلوؤں کو بھی زیرِ گفتگولایا جاتا ہے۔مگر ادب کی کلاس میں اردو ادب ہی کو جانچا اور پرکھاجاتا ہے۔اردو ادب سے میری مراد ظاہر ہے کہ داستان ناول شاعری افسانہ ڈرامہ انشائیہ مضمون اور دیگر اصناف ہیں۔یہ میدان بہت وسیع ہے۔جب کلاس میں کسی موضوع پر لیکچر کا آغاز ہوتا ہے تو اس عنوان کے تحت کسی نہ کسی طریقے سے بحث کا دروازہ کھل جاتا ہے۔پھر اس موقع پر طلباء طالبات کسی نہ کسی حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہیں لیکن یہ تمام صورتِ حال سوال جواب کی محتاج ہوتی ہے۔سوالات کے لئے سٹوڈنٹ کا ذہن تیز ہوناچاہئے۔ اگر ٹیچر کھڑے ہوکر پڑھا کر چلا گیا اور سٹوڈنٹس کے ذہن میں کوئی سوال ہی نہ آیاتو یہ قابلِ افسوس ہے۔ پھر سوال کرنے سے اوپن فورم کا ماحول بنتا ہے کیونکہ ادب میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ سوال اس وقت اٹھتا ہے جب طالب علم کا دماغ ٹیچر کی باتوں کے ساتھ ٹیون ہو جاتا ہے۔ پھر یہی کلاس روم تو سیکھنے سکھانے کا مقام ہے۔ ضروری نہیں کہ استاد ہی سکھلائے۔باتوں باتوں میں نامعلوم انداز سے خود ٹیچر بھی سٹوڈنٹس سے کوئی نئی بات سیکھ لیتا ہے کیونکہ بات سے بات نکلتی ہے تو کوئی نیا خیال جو خود استاد کے ذہن سے اتر گیا ہو لوٹ آتاہے۔پھر استاد بھی تو خود طالب علم ہوتا ہے۔کوئی بھی بڑا آدمی جو علم کے میدان کا شاہسوار ہو وہ بھی سٹوڈنٹ ہوتا ہے۔کیونکہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔بندہ عمر کے ہر حصے میں سیکھتارہتا ہے۔ جب تک لبِ گور نہیں پہنچ جاتا اس کا سیکھنا ختم نہیں ہو پاتا۔بلکہ ہم نے بہت اچھے استاد دیکھے ہیں۔ایک رول ماڈل اور جن کی یاد دل سے بھلا ئی نہیں جا سکتی۔ آج خود ہم جب بطورِ استادکلاس میں بات کرتے ہیں تولگتا ہے کہ ہمارے وہی ٹیچر ہمارے لب و دہن سے بول رہے ہیں۔ ان کاذکر اس لئے آیاکہ وہ دورانِ کلاس لیکچر میں کہا کرتے کہ میں خود ابھی تک طالب علم ہوں۔کلاس روم ایک اوپن فورم ہے۔جس میں ہر سٹوڈنٹ اپنی بات کر سکتا ہے۔پھر یہی فورم بات کرنے کا ہنر سکھلاتا ہے۔اگر آپ یہاں چپ رہ گئے تو آئندہ چل کر آپ پر انگلیاں اٹھیں گی۔ چونکہ دنیا کی رسم بولنا ہے سو کیوں نہ ایسے ماحول میں ان کہی کو ان کہی نہ رہنے دیں۔ شرمانا لجانا خود اپنے آپ کو نقصان دینا ہے۔جو سوال آیا آپ نے کلاس میں ظاہر نہ کیا تو پھر اتنی بہادری کہا ں سے آئے گی جب کلاس کے باہر آپ اسی استاد سے وہی سوال کرسکیں۔ کیونکہ کلاس کا اپنا ماحول ہوتا ہے وہاں اگر سوال نہ ہوسکا تو باہر برآمدے میں بھی نہیں ہوگا۔کیونکہ کلاس سے باہر استاد دوسروں کے ساتھ مصروف ہو جاتا ہے۔کہیں کسی اور کے ساتھ محوِ گفتگو ملے گا اور کہیں ٹیچر کے ساتھ بیٹھے ہوئے پایا جائے گا۔کیونکہ سٹوڈنٹ کا مسئلہ توپڑھائی ہے مگر استاد کے پاس ٹیچنگ کے علاوہ ادارے کے اور بہت کام ہوتے ہیں جن کاوہ حصہ ہوتا ہے او راس کو ان کی بھگتان کرنا پڑتی ہے۔