توجہ طلب امور 

ایک الیکشن کے بعد دوسرے الیکشن تک چار یا پانچ سال کا لمبا عرصہ ہوتا ہے جس میں الیکشن کمیشن کو یہ جاننے کے واسطے کافی وقت میسر ہوتا ہے کہ کتنے نئے ووٹرز اگلے الیکشن میں ووٹ دینے کے لیے قانونی طور پر اہل ہوں گے کتنے وفات پا چکے ہیں اور کتنے سرے سے موجود ہی نہیں اور جنکے ناموں کو فراڈ یا دھوکہ دہی سے ووٹ دہندگان کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے نئے عام انتخابات 2023  میں ہونے ہیں پر اس بات کی کوئی قطعی گارنٹی نہیں کہ اس سے پہلے یہ نہ منعقد ہوں سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں الیکشن کمیشن نے اب تک کیا کاروائی کی ہے؟ قطع نظر کہ ان کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق ہو وہ حضرات جو اس وقت اراکین پارلیمنٹ ہیں کیا یہ ان کی ڈیوٹی نہیں ہے کہ وہ اس سلسلے میں باقاعدگی سے الیکشن کمیشن کے کاموں پر گہری نظر رکھیں اور وقتاً فوقتا ً اس بات کا جائزہ لینے کے بعد قوم کو بتاتے رہیں کہ الیکٹورل لسٹ کی صحت کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟ بدقسمتی سے وقت مقررہ پر کام نہیں کرنے کی ہمارے ہاں روش نہیں اور الیکشن کمیشن کا بھی یہی حال ہے جب الیکشن سر پر آ جاتا ہے تو پھر انہیں خیال آتا ہے کہ فلاں فلاں کام تو ابھی ادھورا ہے مردم شماری کا بھی کم و بیش یہی حال ہے اصولی طور تو ہر دس سال کے بعد ایک منظم انداز میں ملک میں مردم شماری کا عمل دہرانا چاہئے اور پھر تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ووٹرز کی فہرست کو اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے۔پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی دوسری 1961 میں ہوئی تیسری 1972 میں ہوئی چوتھی 1981 میں ہوئی پانچویں 1998 میں ہوئی اور چھٹی 2017 میں ہوئی اور اب 2027 میں میں تازہ ترین مردم شماری کے ہونے کا امکان ہے جس طرح کہ ووٹ دہندگان کی فہرست بنانے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح مردم شماری کرتے وقت بھی جو سرکاری عملہ اس کام پر مامور کیا جائے اسے پہلے تفصیلی طور پر تربیت دی جائے تاکہ اعداد و شمار کرنے میں وہ کسی غلطی کا مرتکب نہ ہو یہ دونوں بنیادی طور پر بڑے حساس نوعیت کے کام ہیں اور ان کی مثال اس پہلی اینٹ جیسی ہے کہ جو کسی دیوار کھڑی کرنے میں لگائی جاتی ہے اگر وہ ٹیڑھی رکھ دی جائے تو دیوار ٹیڑھی اٹھتی ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ”خشت اول چوں نہد معمار کج۔۔تاثریا می رود دیوار کج۔ اس ملک میں ایک نہیں درجنوں کے حساب سے عام انتخابات ہوئے ہیں اور ان میں دھاندلی کا رونا رویا گیا ہے اس پر کچھ مزید لکھنا وقت اور قرطاس دونوں کا ضیاع ہوگا یقینا اس نظام میں شفافیت کو لانا ضروری ہے کہ جس کے تحت ہم انتخابات کا انعقاد کرتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے دنیا میں بڑے بڑے جرائم کا کامیابی سے کھوج لگایا جا رہا ہے اور اگر اس ٹیکنالوجی سے اس ملک میں دھاندلی کے قضئے کو ختم کیا جا سکے تو اس میں برائی کیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین میں بھی کوئی نہ کوہی سقم ہو سکتا ہے کہ جس کی طرف بعض سیاسی حلقے اشارہ کر رہے ہیں پر کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے بجائے ہم اس سقم کی نشان دہی کر کے اسے دور کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے۔ آخر دنیا کے 8 مہذب ترین ممالک میں اس مشین کا استعمال ہوہی رہا ہے۔اس سلسلے میں ایک دوسری بات جو ہمارے نزدیک بہت ہی اہم ہے وہ یہ ہے کہ ریٹرننگ آفیسرز جس وقت الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کریں تو انہیں کافی وقت دیا جائے کہ وہ ہر امیدوار کے کوائف میں جاکر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کسی اخلاقی اور مالی جرم میں ملوث تو نہیں رہا‘کیا وہ سرکاری خزانے میں مختلف قسم کے سرکاری ٹیکس باقاعدگی سے جمع کرا رہا ہے‘ کیا ماضی میں وہ کسی بنک سے قرضہ لے کر اسے کھا پی تو نہیں گیا یا کسی سیاسی بل بوتے پر اسے معاف تو نہیں کروا بیٹھا۔ اگر اس مرحلے میں ٹریننگ افسر احتیاط اور باریک بینی سے کام لیں تو یقین کیجیے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد اسی مرحلے میں الیکشن کیلئے نااہل قرار دی جا سکتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ الیکشن کی ڈیوٹی پر مامور سرکاری عملے کا کوئی بھی فرد اگر کسی قسم کی دھاندلی میں ملوث پایا گیا تو اسے بیس سال قید سخت کی سزا دی جائے گی اس سے بھی سیاستدانوں کیلئے مشکل ہو جائیگا کہ وہ کسی سرکاری اہلکار کو دھاندلی کرنے پر مجبور کر سکیں۔