گلا سگو کانفرنس 

عالمی حدت، مو سمیاتی تغیر اور کر ہ ا رض کو لا حق خطرات پر سکا ٹ لینڈ کے شہر گلا سگو (Glosgow) میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 200مما لک کی پندرہ روزہ کا نفرنس منعقد ہوئی یہ کسی بھی مسئلے پر منعقد ہونیوالی طویل ترین کا نفرنس تھی جس میں مندوبین نے روزانہ 12گھنٹے مسلسل با ہمی مشاورت‘ گفتگو اور تازہ ترین سائنسی رپورٹوں کے مطا لعے میں گذارے۔ کا نفرنس کے اختتام پر اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل انتو نیو گو تریس نے ممبر ملکوں سے اپیل کی کہ وہ کر ہ ارض کو عالمی حدت کے خطرات سے بچا نے کیلئے 200ارب ڈالر کے عطیات جمع کر کے مستقل فنڈ قائم کریں اور ترقی پذیر مما لک کی مدد کا طریقہ کار وضع کریں سیکرٹری جنرل کے خطاب کی جو ویڈیو آئی ہے اس میں دو بڑی باتیں کہی گئی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش‘انڈو نیشیا‘ما لدیپ اور جا پا ن جیسے مما لک کا 11فیصد رقبہ اگلے 30سالوں میں سمندر کے اندر ڈوبنے کا خطرہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ صنعتی مما لک کو گرین ہاوس گیسوں کے اخراج پر قابو پا نے کے لئے بطور ایندھن کوئلے کا استعمال بند کرنا ہوگا اگرچہ کانفرنس میں کوئی باقاعدہ معا ہدہ سامنے نہیں آیا پھر بھی یہ بات اہمیت کی حا مل ہے کہ عالمی حدت اور موسمیا تی تغیر کے حوالے سے 200مما لک کے مندو بین نے تفصیلی تبا دلہ خیال کیا، سفارشات تیا رکی گئیں جن کو منا سب وقت پر عالمی معاہدے کا حصہ بنا یا جا ئیگا اور اس کا نا م گلا سگو پیکٹ ہو گا۔کوہ ہندو کش کے دامن میں 9ہزار فٹ کی بلندی پر واقع وادی لا سپور میں بھی گلاسکو کے کا نفرنس ہال کی طرح عالمی حدت کے خطرات محسوس کئے جا رہے ہیں اس وادی کے دو اطراف میں 16ہزار فٹ اور 18ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گلیشیر ہر سال پگھل کر سیلا بوں کا سبب بن رہے ہیں سیلا بوں سے زرعی زمینوں اور با غوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے اس نقصان کا دائرہ نبا تات اور جنگلی حیات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے مقا می کسا نوں اور چرواہوں کا مشا ہدہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے اندر پر ندوں کی 100اقسام نا پید ہو چکی ہیں نباتات کی بے شمار اقسام اب دیکھنے میں نہیں آتیں یہ وہ اقسام تھیں جن کی زند گی کا دارو مدار سرد موسم پر تھا اگر چہ کسا نوں کو جدید سائنسی اعداد و شمار کا علم نہیں تا ہم کسا نوں کو معدوم ہونیوالے پرندوں اور پودوں یا پھو لوں کے نا م زبا نی یاد ہیں اس وادی کے نیم خواندہ یا نا خواندہ کسا نوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ ما حو لیا تی تبا ہی میں صنعتی پیداوار کا ہاتھ ہے‘ وہ کیمیکل کے ذریعے بنے ہوئے کھادوں کا ذکر تواتر کے ساتھ کر تے ہیں‘وہ کیڑے مار نے والی دواووں کا نا م تواتر کیساتھ لے رہے ہیں اور اس کا ملبہ کار خانوں پر ڈال رہے ہیں ہندو کش کی پہا ڑی وادیوں میں بسنے والے کسا نوں کے تجربات کی گونج آخر کار اقوام متحدہ کی کا نفرنس میں بھی گونجنے لگی ہے۔ گلا سکو کانفرنس کے مندو بین نے چین‘ روس‘ امریکہ اور دیگر صنعتی مما لک پر زور دیا ہے کہ وہ صنعتی ایندھن کے طور پر کو ئلے کا استعما ل بند کریں اور کرہ ارض کو ممکنہ تبا ہی کے خطرے سے بچا ئیں عالمی حدت پر یہ پہلی کانفرنس نہیں اس سے پہلے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں میں ما حول کے تحفظ کی دو کانفرنسیں 1971اور 1981میں منعقد ہوئی تھیں 1991ء میں ریو پلس (Rio+) کے عنوان سے بیجنگ میں عالمی کانفرنس ہوئی ان کانفرنسوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے 1992کا فریم ورک کنونشن منظور کیا جو ماحولیات کے تحفظ کا جا مع کنو نشن ما نا جا تا ہے اس تسلسل میں جا پان کے شہر کیو ٹو (Kyoto) میں 1997کا ماحولیاتی معا ہدہ ہوا جس میں ممبر ملکوں نے گرین ہاوس گیسوں میں کمی کے ساتھ متا ثرہ ہونے والے ملکوں کیلئے کار بن فنڈ کے قیام کا وعدہ کیا مگر یہ معا ہدہ امریکہ کی ہٹ دھر می کی وجہ سے عمل میں نہ آسکا خدا کرے گلا سکو کا نفرنس کا انجام بخیر ہو اور ممبر ممالک کا یہ جذبہ سرد مہری کی نذر نہ ہو۔