غلافِ لب و رخسار۔جی ہا ں ماسک۔ اس انگریزی لفظ کا ترجمہ یاروں نے اردو میں کیا تو ہے۔مگر ترجمہ زیادہ طویل اور گراں ہے۔ اس میں ایک کے بجائے تین الفاظ جگہ پا چکے ہیں۔ اسی لئے تو یہ ترجمہ ناکامیاب ہوا۔اب وہی لفظ ماسک چل رہا ہے۔یہ اب ہماری زندگی میں داخل ہو چکا ہے۔قریب قریب نہیں لگتا کہ اس سے جان چھوٹے۔کیونکہ اس وائرس کی اگلی لہر کے آنے کا ڈر ہمہ وقت موجود ہے۔اگرچہ کہ ہمارے بھائی بند کووڈ انیس کی یاد کو آہستہ آہستہ دل سے بھلا رہے ہیں۔ مگر یہ کوئی بھولنے والی چیز تو نہیں۔ ہائے اتنے یاروں پیاروں کی جان کی قربانی دینا پڑی۔اب تو دعا ہے کہ اس بیماری کو مکمل دیس نکالا مل جائے۔ مگر اب جو بہتری کی صورتِ حال سامنے آئی ہے اس کی بنیادی وجہ ویکسین کالگاناہے۔مجبوری میں سہی مگر عوام الناس نے جو ٹیکے لگائے اسی کی وجہ ہے کہ اس وباکی روک تھام ممکن ہو سکی ہے۔ اب تو اس نامراد بیماری کے شکار لوگ کم ہو کر ایک فی صد تک نیچے آ گئے ہیں۔ مگر کیا ہے کہ اس متعدی مرض نے جاتے جاتے بہت سوں کو موت کے منہ میں اگر دھکیلاتو کتنے ہیں جو کاروباری طور پر ناکارہ ہو گئے۔ ان کی روٹی پانی کو وہ دھچکالگا ہے کہ اب تک سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔بڑے شہروں میں اور چھوٹے شہروں دونوں میں کاروبار اور روزگار چھن گیا ہے۔کارخانے ابھی تک بند ہیں۔کتنوں کو نوکری سے چھٹی کروا دی۔مگر اب پرانی روش وہ طرز ِ حیات وہ رونق ِ بازار اب دوبارہ دیکھیں تو شاید اس خواہش کی تکمیل میں کچھ اور وقت بھی لگ جائے۔ مگر دوسری طرف ڈینگی کے بخار نے جو سر ابھارا ہے۔جس کے مریض کبھی زیادہ کبھی کم ہونے لگتے ہیں۔بہت جان کی بازی ہار گئے۔سکولوں سے بچوں کو چھٹی کروائی جا رہی ہے۔سموگ میں پچاس فی صد حاضری کے ساتھ دفتروں میں بلایاگیا ہے۔ایک مصیبت سے جان چھوٹتی ہے تو دوسری آفت کے پھندے میں پاؤں خود بہ خود جا پھنستا ہے۔کیا ہوگا کیا نہ ہوگا۔ مگر یہی دنیا ہے۔یہیں رہنا ہے۔جیتے ہیں مرتے ہیں زندگی گذارنا ہے بھلے زندگی ہمیں گذار لے۔مگر اس دنیا اس زمین پر جہاں ہمارے پاؤں ٹکے ہیں۔یہاں سے فرار ممکن نہیں ہے۔چلو اس مصیبت میں عالمی مقابلوں کے ٹی ٹوئنٹی کے بخار نے اپنی الگ سے جگہ بنائی اور ہماری زندگیوں میں شامل ہوا۔ وہ اچھاہی ہوا۔کیونکہ اس سے قوم کو ایک طرح کی تفریح ہاتھ آئی۔ جو ٹی وی سکرین کے ساتھ منسلک رہے میچ دیکھتے رہے کسی بہانے مصروف رہے۔اب تو چرچا ہے ٹی ٹین میچوں کا جو ہو رہے ہیں اور ہونے جا رہے ہیں۔بعض لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ کورونا چلا گیا ہے۔ مگر یہ تو اب بھی موجود ہے۔وہ اپنا مزے سے بغیر ماسک کے گھوم رہے ہیں۔مگر زیادہ تو کورنا کے عین شباب کے عالم میں بھی ماسک کا تکلف نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے بعض کو تو عبرت والا سبق بھی ملا۔پھران میں بعض ماسک کے قائل ہوگئے۔کچھ تو پہلے بھی ہاتھ سے ہاتھ سے ملاتے اور خوب ملاتے۔مگر کچھ تو اب بھی ہاتھ نہیں ملاتے۔اس میں ایک اور فائدہ بھی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو جو روزانہ ایک جگہ بیٹھتے ہیں۔کوئی فرم ہو یا دکان یا دفتر۔ وہاں اوروں سے تو ہاتھ ملائیں گے۔مگر جن کے ساتھ نہیں لگتی ان ناپسندیدہ شخصیات سے کورونا کابہانہ بناکر ہاتھ ملانے سے کنی کترائیں گے۔چلو کسی بہانے سہی اچھی بات کہ اب ہاتھ سے ہاتھ نہ ملے۔کچھ تو ایسے ہیں کہ ماسک کو اس طرح اپنا چکے ہیں کہ گویا ماسک ان کے جسم کی جلد کا حصہ ہو۔ہمہ وقت پہنے ہوں گے۔جیسے عینک ہو کہ لگانا ضرور ی ہے کہ اس کے بغیر نظر ہی نہ آئے دفتروں اداروں کے مین گیٹ پر لکھا ہوگا کہ نو ماسک نو انٹری مگر اب تو سیکورٹی گارڈ بھی اندر جانے والے کو بغیر ماسک نہیں روکتے۔سماجی فاصلہ تو گیا خاک ہوا۔ یہ تو پہلے بھی نہ تھا او راب کہاں۔ بینک میں لائن لگی ہو تو ایک دوسرے میں پھنسے کھڑے ہوتے ہیں۔جو قدموں کے نشان فرش پر ڈالے گئے کہ ہر ایک بندہ یہیں کھڑا ہو وہ تو ہوا خواب او رخیال۔پھر بعض ایسے ستم گر ہیں کہ گھر سے نکلیں گے تو اوپن ماحول میں ماسک پہن لیں گے۔مگر جب دفتر او رسکول کالج پہنچیں گے تو ماسک کو اتار کر جیب میں ڈال لیں گیمگر خلاف کرنے والوں کومعلوم ہونا چاہئے کہ اگر آپ نے ویکسین کے دونوں ٹیکے لگا رکھے ہیں یا بوسٹر ڈوزلگا لی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو کورونا نہیں ہوگا۔ ہاں ویکسین والے کو بہت فائدہ ہے کہ اس کو کورونا ہوجانے کا چانس بہت کم ہے۔ ا س دھوکے میں نہیں رہنا چاہئے۔