قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک نے اپنے خلاف ’میچ فکسنگ‘ سے متعلق الزامات کو بیک وقت تسلیم اور اِن سے انکار کرتے ہوئے قومی کرکٹ کے منتظم ادارے سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں لیکن صورتحال واضح نہیں ہو رہی کہ اُنہیں ایسا کرنے کا موقع دینا چاہئے یا نہیں؟ ایک ہفتے کے دوران 2 مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس تاثر کی نفی کی ہے کہ وہ کرکٹ میں سٹہ بازی (میچ فکسنگ) میں ملوث رہے ہیں۔ سلیم ملک شائقین ِکرکٹ سے معافی مانگ چکے ہیں جبکہ اُنہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔کرکٹ کے عالمی قوانین کے مطابق کھیل سے متعلق سٹے بازی (فکسنگ) کرنے والا کوئی بھی کھلاڑی اگر اپنے جرم کی سزا پائے تو اُس کی دنیائے کرکٹ میں واپسی کیلئے لازم ہوگا کہ وہ آئی سی سی کے ضابطہ اخلاق کے تحت پہلے اپنے جرم کا اعتراف کرے اور اس کے بعد بحالی کے پروگرام سے گزرے‘ جس میں اُس کے نفسیاتی و اخلاقی تربیت کی جاتی ہے۔ سلیم ملک کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سٹے بازی کے الزامات لگنے کے بعد عدالت میں پیش ہوئے جہاں سے اُنہیں بری (کلیئر) کیا گیا اور عدالت نے 2008ء میں اُن پر عائد تاحیات پابندی اٹھانے کا حکم دیا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے سلیم ملک کو قبول نہیں کیا اور سلیم ملک کی کوششوں کے جواب میں کہا ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے ملنے والے ٹرانسکرپٹ پیش کیا جائے جبکہ سلیم ملک کا مؤقف ہے کہ اُنہیں آئی سی سی یا پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس طرح کا کوئی ٹرانسکرپٹ نہیں دیا لیکن اگر انہیں اپنے خلاف الزامات کا مسودہ دیا گیا تو وہ کسی بھی سطح پر پیش ہو کر وضاحت دینے کیلئے تیار ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سال دوہزارتیرہ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو پچیس صفحات کا ایک مسودہ (ٹرانسکرپٹ) ارسال کیا تھا جو دراصل سلیم ملک کی برطانیہ میں کسی شخص کے ساتھ بات چیت پر مبنی تفصیلات تھیں۔ مذکورہ بات چیت سوچی سمجھی (طے شدہ) خفیہ کاروائی (sting operation) کے ذریعے بالکل اسی انداز میں ریکارڈ کی گئی تھی جس طرح سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ مظہر مجید کے ساتھ ہوا تھا۔ کرکٹ کا عالمی منتظم ادارہ اور کھیلوں سے متعلق خبرنگاری کرنے والے صحافی ایسی خبروں کی کھوج میں رہتے ہیں‘ جن سے کھلاڑیوں کی نجی مصروفیات اور نجی زندگی میں بے قاعدگیوں کو جان سکیں اور اِس مقصد کیلئے وہ جوئے یا سٹہ بازی کے طریقوں کو منظرعام پر لانے کیلئے بھی کوششیں کرتے ہیں‘ جن میں اکثر کامیابی ہوتی ہے۔ سلیم ملک کے خلاف اب تک ہوئی کاروائیوں میں اُن کی کامیابی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت کی جانب سے اُن پر عالمی کرکٹ کھیلنے کی پابندی ہٹائے جانے کے بعد کرکٹ بورڈ نے اُن کے واجبات (پراویڈنٹ فنڈ) بھی بڑی مشکل سے جاری کیا تھا‘ جسے وہ روکے ہوئے تھے۔ اِس سلسلے میں ’جسٹس ملک قیوم رپورٹ (سال 2002ء)‘ کی سفارشات لائق توجہ ہیں‘ جن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ کسی بھی تحقیقاتی رپورٹ کا ایک جز سفارشات ہوتی ہیں‘ جن کا مقصد مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام (اصلاح) کا پہلو سامنے رکھا جاتا ہے۔ سلیم ملک کے خلاف کی گئیں تحقیقات اور ایسی دیگر تحقیقات میں نامزد ملزموں (کرکٹرز) کو کسی نہ کسی صورت معاف کرتے ہوئے اُنہیں کسی نہ کسی حیثیت میں عالمی کرکٹ میں واپس لایا گیا لیکن سلیم ملک کے خلاف بورڈ کا مؤقف بدستور سخت ہے‘ جسے وہ تبدیل دیکھنا چاہتے ہیں۔ سلیم ملک قریب انیس سال سے مقدمہ لڑ رہے ہیں اور اپنے دفاع کیلئے ہر ممکنہ کوششیں کرتے ہوئے دلبرداشتہ دکھائی دیتے ہوئے چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ (کم از کم اُنیس برس بعد تو) انصاف ہو! ذہن نشین رہے کہ سلیم ملک کا نام 3 تحقیقاتی رپورٹس میں شامل ہوا اور اگر قانونی نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو سلیم ملک کی کرکٹ واپسی صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ہی نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے انسداد کرپشن ضابطہئ اخلاق پر عمل سے مشروط ہے اور جس زمانے میں سلیم ملک‘ ہنسی کرونیے اور اظہرالدین پر پابندیاں لگی تھیں اس زمانے میں آئی سی سی کا انٹی کرپشن ضابطہ اخلاق موجود ہی نہیں تھا اور آئی سی سی نے اس وقت متعلقہ کرکٹ بورڈ سے تحقیقات کیلئے کہا تھا لیکن اب چونکہ آئی سی سی کا باقاعدہ انٹی کرپشن ضابطہ اخلاق موجود ہے لہٰذا جو بھی کرکٹر میچ فکسنگ یا سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے بعد واپس آنا چاہتا ہے یا واپس آیا ہے اُسے خاص مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں پہلے وہ اپنے کئے گئے جرم کا اعتراف کرتا ہے اور معافی مانگنے کے بعد قواعد و ضوابط کے تحت اُس کی ذہنی و اخلاقی بحالی کا پروگرام شروع ہوتا ہے۔