کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہے اپنا گھر پھر بھی 

گھر کتنی خوبصورت چیز ہوتا ہے۔گھر چار دیواری کا نام تو نہیں۔ یہ تو اس احاطے کے اندر کی فضا کا نام ہے۔ جس میں محبتیں ہوتی ہیں۔ جس میں پیار پلتاہے۔صحن میں رکھے گملوں میں پودوں کی طرح آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے۔اس دروبام میں رشتوں کی خوشبو ہوتی ہے۔پھر ہر رشتہ کی الگ الگ خوشبو ہے۔ یہ خوشبو ایک سے ایک بڑھ کر ہوتی ہے۔انھیں خوشبوؤں سے گھر کی فضامیں اپنائیت ہوتی ہے۔ جس کا نعم البدل دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کا سفربھی اختیار ہو مگر اپنے گھر کا ساماحول اور اپنے گردو پیش کی سی فضا اور کہاں ملے گی۔ آدمی سارا دن کام کاج کو یا یونہی آوارہ گردی کرتے ہوئے گھومے پھرے مگر مڑ کر اسے اپنی اسی کٹیا اسی جھونپڑیا اسی سوئیٹ ہوم میں آنا پڑتا ہے۔ کیونکہ کوئی محل کتنا ہی خوبصورت ہو سنگِ مرمر کے رنگین و سفید تراشیدہ ایک ایک سل سے بیسیوں طرح گھومتا ہوا اوپر کی منزلوں تک چلا گیا ہو۔مگر اپنے گھر کی ٹوٹی چارپائی کی لٹکی ہوئی ادوین پر جو نیند آتی ہے وہ کسی بیش قیمت خواب گاہ میں کہاں آئے گی۔”ہزار عیش قفس میں سہی وہ بات کہاں۔کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہے اپنا گھر پھر بھی“۔گھر میں بھلے کوئی نہ ہو بندہ اس درو دیوار کے اندر اکیلا ہو مگرجو طمانیت او رتسکین اس کو اپنے غریب خانے میں ملتی ہے وہ کمخواب کے بسترپر دستیاب نہیں ہوتی۔”ترس نہ اتنا بھی کمخواب و پرنیاں کے لئے۔ سکون ِ دل ہے میسر تو خاک پر سوجا“۔جہاں سکون دل ملتا ہے وہ گھر ہی تو ہوتا ہے۔دیر گئے سہی مگر گھر ہی آنا پڑتا ہے۔اگرچہ دروازہ پر زنجیر پڑی ہو۔گھر تو اندر کی فضا کا نام ہے۔شہر میں تو مکانات ہزاروں اور لاکھوں کے حساب سے ہیں۔مگر اس میں بندے کا گھر تو ایک ہی ہوتا ہے۔جس میں اس کا انتظار ہوتا ہے۔کبھی ماں منتظر نگاہیں لئے دروازے کو رات گئے تک دیکھ رہی ہوتی ہے تو کبھی گھر کی خاتون آنکھو ں میں جلتے ہوئے دوچراغ لئے اس فکر میں ہوتی ہے کہ خدا خیر کرے آج دیر کیوں لگا دی۔کبھی تو چڑیا کے گھونسلے کی طرح اس گھر میں بچے چوں چوں کر رہے ہوتے ہیں۔اس کے من میں بھی انتظار کی دو شمعیں جل رہی ہوتی ہیں۔باپ الگ چارپائی پردراز ہو کر لگتا ہے سو گیا ہے۔مگر وہ چادر کے اندر آنکھیں کھولے جانے کون کون سی فکر کے نرغے میں ہوتا ہے۔اسی لئے تو مکان اور گھر میں بہت فرق ہوتا ہے۔جو آسمان و زمین کے درمیان میں ہے وہ فاصلہ۔اگرچہ مکانات ساتھ ساتھ ہوتے ہیں مگر فاصلہ اتنا ہی زیادہ ہے۔گھر تو وہ ہے جہاں بچے ہوتے ہیں ماں باپ اور بہن بھائی رہتے ہیں نانی ہو یا دادی سب مل کرایک یونٹ بناتے ہیں ایسے میں دعا ہے کہ کسی کے گھر کو خزاں کی نظر نہ لگے۔پودوں اور گملوں کی بھینی بھینی خوشبو دل کو لبھا رہی ہو۔”یہاں جو پھول کھلا ہے کھلا رہے یونہی۔ یہاں خزاں کو گذرنے کی بھی مجال نہ ہو“۔اس آنگن میں جس نے ابھی خزاں کی ہوا نہ دیکھی ہو آباد رہنا ہوتاہے۔بشرطیکہ اس کے کرداروں کے درمیان کھینچا تانی کی فضا اپنا سارخ اختیار نہ کرلے۔وگرنہ تو یہ گھر تری بڑی ہو جائے۔ پھر موتیوں کی یہ مالا دانہ دانہ بکھر جائے۔اس گھر کو قائم رکھنے اور اس کے اندر کے رشتوں کو ایک دھاگے میں پروئے رکھنے کیلئے بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔آپس میں صبر و برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔صبرو سکون کو شعار بنانا پڑتا ہے۔تب جاکرگھر کو گھر کہیں تو کیا برا ہے۔مگر جب گھر کی فضا غیروں کے پھونکے ہوئے زہرکی وجہ سے آلودہ ہو جائے تو اس کے خون کے رشتوں والے کردار آپس میں الجھ کر تصادم کی فضا کو اپنا لیں تو پھر گھر کا آگ کے شعلوں کی ہوامیں تنکا تنکا ہوکر اڑنا یقین میں آنے لگتا ہے۔”کیا اس لئے چنوائے تھے تقدیر نے تنکے۔ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے“۔اس گھر کو اگر وطن سمجھ لیں تو گھر کوباقی رکھنے کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ ”وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں۔یہ تیرے جسم تیری روح سے عبارت ہے“۔وطن بھی تو گھر ہے گھر ہی توہوتا ہے۔ پھرکیوں نہ اس کی آبادی اور شادابی کی سبیل کی جائے۔”بلبل کو پیار پھول سے کوئل کوبن سے پیار۔پھر کیوں نہ آدمی کو ہواپنے وطن سے پیار“۔اینٹ پہ اینٹ رکھنے سے توگھر نہیں بنا کرتے۔”اینٹ پہ اینٹ سجا کر دیکھا۔ نہ بنا گھر جو بنا کردیکھا“۔کیونکہ محبتوں ہی سے اور وفاداریوں سے گھروں کی دیواریں اٹھائی جاتی ہیں۔